خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ

جمعرات 20 اگست 2020

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد، خلیفہ دو م حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔عمر رضی اللہ عنہ نام،ابوحفص کنیت، فاروق لقب ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرب کے قبیلے عدی سے تعلق رکھتے تھے جو رسول اللہ سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ رسول اللہ کی خواہش تھی کہ اسلام کو ایک مضبوط اور طاقت ور شخص کی حمایت حاصل ہو جائے۔

اسی لیے آپ نے اپنے پروردگار سے دعاء مانگتے تھے کہ ابوالحکم بن ہشام یا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب میں سے کوئی مسلمان ہو جائے۔ ابو جہل تو ابو جہل ہی رہا مگر اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل اسلام کی طرف مائل کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے پاس آئے اوررسول اللہ سے کہا میں خدا،اس کے رسول اور اس کی وحی پر ایمان لانے حاضر ہوا ہوں۔

(جاری ہے)

اس کے بعد جس حمیت کے ساتھ پہلے اسلام کی مخالفت کرتے تھے اب اسلام کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ جس رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اسی کی صبح کو رسول اللہ کے جانی دشمن ابو جہل کے پاس گئے اس نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا سن لو ابو جہل میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ اُس نے دروازہ بند کر دیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد مسلمان کعبہ میں نماز پڑھنے لگے۔

اس قبل مسلمان مکہ کے آس پاس کی پہاڑیوں میں چھپ چھپ کے نمازیں پڑھتے تھے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے بارے میں رائے لی جس کو انہوں نے قبول کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وفات کے بعد مسلمانوں کی آزادر ائے سے خلیفہ دوم منتخب ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت دس سال چھ ماہ رہی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت سنہری الفاظ سے لکھنے کا دور ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں صحابہ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے حکومت کرتے تھے کسی بھی معاملے پر پہلے سیر حاصل بحث ہوتی تھی پھر کثرتِ رائے سے فیصلے ہوتے تھے جن کو مشرق ومغرب میں پذیرائی ہوئی۔اس کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجلسِ شوریٰ بنائی ہوئی تھی۔اُس وقت دنیا کے دوسرے حکمرانوں میں یہ چیز نا پید تھی۔

اس سے ثابت ہوا کہ شورائی نظام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قائم کیا۔طریقہ اس نظام کا یہ ہوتا تھا ،جس معاملے میں مشورہ ہوتا اس کو مسجد نبوی میں بلائے ہوئے لوگوں کے سامنے رکھا جاتا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ دو نماز رکعت نماز کے بعد ممبر رسول پر بیٹھتے اور بحث سننے کے بعد فیصلہ فرماتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ عام حقوق میں سب کے ساتھ برابر تھے۔

اسی لیے ایک عام آدمی کھڑے ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سے سوال کر سکتا تھا کہ آپ نے یہ کرتا کیسے بنا لیا جبکہ تقسیم کی گئی چادر سے یہ کرتا نہیں بن سکتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیان کرنا پڑا کہ دوسری چادر میں نے اپنے بیٹے سے لے کر کرُتا بنوایا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لباس میں اکثر پیوند لگے ہوتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہت سے محکمے قائم کیے۔

زراعت، قضا ، بیت المال کی عمارتیں بنوائیں، بیت المال کے اندر کتنی رقم ہے اس کے حساب کتاب کا انتظام قائم کیا بیت المال کا امیر حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کو بنایا ان کے ماتحت حضرت عبدالر حٰمن بن عبیدالقاری رضی اللہ عنہ اور معیف رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا حضرت معیف رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے انگشتی بردار تھے ۔ چار بڑی نہریں بنوائی جن کے نام یہ ہے،نہر ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ ،نہر معقل رضی اللہ عنہ ،نہر سعد رضی اللہ عنہ اور نہر امیرا لمومنین ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں کئی شہر آ با د ہو ئے۔ تمام مملکت کو صوبہ جات اور اضلاع میں تقسیم کیا ہوا تھا۔اور یہ نظام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ۲۰ ئھ میں قائم کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی تنخواہیں اور وظیفے مقرر کیے۔عاملوں کے تقرر کرتے وقت اُن کے فرائض اور حقوق کا تعین کیا۔خراج کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایجاد کیا۔

حضر ت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی بڑی قدر کرتے تھے اور ا ُن کے عمر میں چھوٹے ہونے پر لوگ اعتراض کرتے تھے۔ایک محفل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے ایک سوال کیا۔ لوگ مکمل جواب نہ دے سکے ۔وہ ہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کیا انہوں نے مکمل جواب دیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی قدر کرتا ہوں۔

جس پر لوگوں نے اس عمل کو تسلیم کر لیا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں قریش کے سردار تشریف فر ما تھے۔اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تشریف لا ئے۔ اُن سرداروں سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہمارے سردار کے لیے جگہ بناؤ۔ اس پر سرداروں نے آپس میں چہ مہ گوئیاں کیں کہ جس وقت اسلام پر مشکل وقت تھا تو یہ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کام آ ئے تھے ۔

ہماری عزت اب اسلام کی خدمت کر کے ہی قائم ہو سکتی ہے۔حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو اُسی قطبی کے ہاتھوں سزا دلائی جس کو بغیر قصور کے کوڑے مارے گئے تھے۔متعلقین رسول اللہ کا پاس رکھتے تھے۔ جن لوگوں نے رسول اللہ کا ساتھ دیا تھا اور اپنا سب کچھ دین اسلام پر قربان کر دیا تھا ان کی خدمت کے اعتراف میں وظیفے مقرر کئے۔ بنو ہاشم سب سے پہلے درجے،اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ناموں سے ابتدا،پھر بنو امیّہ،پھر بنو عبدالشمس،پھربنو نافل،پھرعبدالعز یٰ اپنا قبیلہ آخری درجہ پر رکھا۔

چناچہ اس حساب سے وظائف تقسیم ہوتے تھے۔ اصحاب بدر رضی اللہ عنہ کی سب سے ذیادہ تنخواہیں مقرر کیں۔سب سے بڑی مقدار حضرت اُسامہ بن زیاد رضی اللہ عنہ کی مقرر کی۔ اس پر اِن کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عذر کیا تو فرمایا ۔رسول اُسامہ رضی اللہ عنہ کو تم سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور اُس کے باپ کو تمہارے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس گئے تو کاروبار حکومت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے گئے۔ قضاء و قدر کا صیحح مفہوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کے سفر پر تھے معلوم ہوا وہاں عمواس (وبائی مرض) بہت زور پر ہے۔

واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے طیش میں آ کر کہا قضاء الہی سے بھاگتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ ہاں اللہ کے حکم سے اللہ کے حکم کی طرف بھا گتا ہوں۔ حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر کہامیں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ایک درخت کے نیچے رسول للہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے بیعت لی تھی اس بنا پر یہ درخت متبرک سمجھا جانے لگا اور لوگ اس کی زیارت کو آتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر اس درخت کو کٹوا دیا۔سفر کے دوران ایک مسجد میں رسول نے نماز پڑھی تھی ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ اس مسجد کی طرف دوڑے توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا اہل کتاب ان ہی باتوں سے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت بنا لیتے تھے۔اور بہت سے واقعات ہیں جو رسول اللہ کی صحبت میں رہ کر سیکھے تھے۔

اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس واقعات کی روح کے مطابق عمل کیا۔تاریخ میں مقدونیہ کے سکندر اعظم کو( الیگزینڈر ) کہا جاتا ہے جو غلط ہے ۔ اس نے دنیا فتح کی تھی جس کی سلطنت صرف ۱۷/ لاکھ مربع میل پر تھی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت ۲۲/لاکھ مربع میل کے علاقے پر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سکندر اعظم تھا نہ کہ مقدونیہ کا بادشاہ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر بیٹھتے وقت جو خطبہ دیا اُس کے ابتدائی الفاظ یہ تھے۔ اے الہی اگر میں سخت ہوں مجھے نرم کر دے۔ میں کمزور ہوں مجھے قوت دے۔عرب قوم سے خطاب کر کے کہا ۔ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ لیکن میں اِن کو راستے پر چلا کے چھوڑوں گا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فقہ کے مسائل کی تعداد کئی ہزار ہے۔

ان میں تقریباّ ایک ہزار بڑے مسئلے ایسے ہیں جو کہ فقہ میں مقدم ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حل کیا اور ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی۔بعض مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کی مجلس بلائی انصار و مہاجرین کو جمع کیا مگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ سے معلومات حاصل کی گئیں اوراُن کی را ئے پر عمل کیا گیا۔

رسول کے زمانہ مبارک میں بہت سی را ئے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی اُس پر وہی نازل ہوئی۔مثلاً قیدیانِ بدر،حجاب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ ،نماز بر جنازہ منافق وغیرہ۔مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا جس کی کنیت ابو لولو تھی ۔ اس نے ایک دن آپ سے اپنے آقا کی شکایت کی اور کہا کہ مجھ سے بھاری محصول لیا جاتا ہے آپ نے اس سے دریافت کیا کونسا پیشہ کرتا ہے۔

بولا نجاری ،نقاشی اور آہنگری کا پیشہ کرتا ہوں ۔کیونکہ اس پیشے سے مناسب پیسے ملتے تھے۔ اس لیے آپ نے فرمایا ان صنعتوں کے مقابلے میں رقم کچھ بہت نہیں۔فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔ دوسرے دن آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ فیروز نے چھ وار کیے جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا زخم کے صدمے سے گر پڑے اس کے بعد فیروز نے خود کشی کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا میرا قاتل کون تھا۔

لوگوں نے کہا فیروز ۔” فرمایا الحمد اللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا“حضرت عمر نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے حضور کے پہلو میں دفن ہونے کی درخواست کی جو انہوں نے نے مان لی۔ اسطرح آپ حضرت محمد کے پہلو میں دفنائے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت فتوعات ہوئیں جیسے اوپر ذکر ہو چکا ہے ان کی حکومت ۲۲/ لاکھ مربع میل پر تھی۔

عوام کی خدمت کے لیے بہت سے محکمے قائم کیے گئے تھے۔ چار بڑی نہریں بنائی گئیں تھیں۔ سڑکیں، مسافر خانے اور راستوں میں عوام کی حفاظت کے لیے چوکیاں بنائی گئی تھیں۔علم کی قدر تھی، اصحاب رضی اللہ عنہ رسول کی عزّت تھی،بیت المال عام مسلمانوں کی امانت سمجھا جاتا تھا آجکل کے حکمرانوں کی طرح بیت ا لمال سے کرپشن ،بے جا اسراف اور حکومتی اہلکاروں کو ناجائز مراعات نہیں دی جاتی تھیں۔ خوف خدا تھا اللہ نے آسمان اور زمین کے خزانے کھول دئیے تھے۔امن آمان تھا،عدل انصاف تھا،حقوق و فرائض کی تقسیم تھی انسانیت کی قدر تھی۔اللہ سے دعا ہے کہ مسلمان حکومتوں میں پھر سے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ جیسانظام حکومت قائم ہو جائے تاکہ لوگ سکھ کا سانس لے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :