فوج اور اسٹیبلشمنٹ میں فرق

جمعرات 22 اکتوبر 2020

Mohammad Abdullah Latif

محمد عبداللہ لطیف

آج کال کے جو سیا سی حالات ہے ۔ اس میں ایک لفظ کثرت سے استعمال ھو رہا ہے ۔ بات شروع کرنے سے پہلے بتادوں کہ ھماری فوج دنیا کی عظیم فوج ھے۔ آج پاکستان کا امن ھے ۔ تو صرف فوج کی وجہ سے ھے۔  آج اپوزیش کی ہر تقریر میں وہ کھل کر کہا ریے ۔ہے کہ عمران خان کو لانے والوں سے مقابلے ہے ۔۔ لانےوالوں کیا مراد ہے ۔اس کا مجھ جیسے کم عقل کو بھی معلوم ہے ۔

عام طور یہ خیال کیا جاتا ہے ۔حکومت وہی بنا سکتا ہے ۔جس کے ساتھ فوج ھو ۔ خیر موضوع کی طرف واپس آتے ہے ۔ آپ نے کسی نہ کسی ٹاک شو میں اسٹیبلشمنٹ کا نام سنا  ھوکا ۔ کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کو فوج کے زمرے میں لاتے ھے ۔ اب بات یہ کے فوج اور اسٹیبلشنٹ کیا فرق ھے ۔  اب سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ پر اتا ہوں ۔ اگرچہ یہ بات درست ہے ۔

(جاری ہے)

کہ ھماری سیاست میں تمام معملات پر اسٹیبلشمنٹ کا کچھ اسر تو ہے ۔

وہ شخص جو سیاست فہم ہے ۔ وہ اس بات کا انکاری تو نہں ہوسکتا ۔ اب بات یہ کہ اسٹیبلشمنٹ میں کون لوگ ہوتے ہے ۔ اس میں وہ جرنیل وہ بیورکرٹیس جن کو سیاست میں مداخلات کا چسکا پڑ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ سیاست دان ٹاوٹ جو ان کے کارندے ھوتے ہے ۔ اس کے برعکس ہماری فوج میں وہ جوان اتا ہے ، جو سیچن میں 20- اپنے وطن کی خاطر ایک چمچ اور وطن کی محبت کے ساتھ لٹرتے رہے ۔ ہماری فوج میں حوالدار لالک جان ، میجر عزیز بتھی ، سرور حسین ،اور وہ جوان جو سیچن کی سردی میں ریگسیتان کی گرمی  میں ڈاٹا رہا ۔ اسں بات کو یہ کہا کر ختم کرو گا کہ اگر ہماری فوج نہ تو ہم نہ ھو ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :