وزارت یا مزاق

ہفتہ 12 دسمبر 2020

Mohammad Abdullah Latif

محمد عبداللہ لطیف

بردارن ملت پاکستان کی  اس براے نام جمہوری تاریخ کا جایزہ لے تو ایک بات  جو بار با ر سامنے سے گزرتی ہے کہ  صرف 1997 کہ الکیشن میں ہی نواز شریف  دو تہیاہی اکثریت حاصل کر سکے اس سے پہلیے اور بعد میں جو بھی الکیشن ھوے ۔ اس میں جو بھی جماعت اکثرت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔اس کو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے اتحاد کرنا پڑتا ہےیا 2002 کی طرح مخلاف جماعت کے اندر تور پھوڑ کرکہ حکومت تو بنانی ھوتی ہے۔

  خواہ وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہی کیوں نہ یا کراچی کے بدمعاش ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اتحادی وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ صرف وزرات ملنے پر دیتے ہے ۔ پھر چاہیے وہ مختصر کابنیہ کے دعودار عمران کان ہی کیوں نہ ھوں ۔ان کو اپنی حکومت بنابے کے لیے گٹنے ٹیک نے ہی پڑتے ہے ۔

(جاری ہے)

ابھی کچھ لحمے پہلیے یہ خبر ملی کہ کہ کابنیہ میں کچھ ردو بدل ھوہی ہے کہ وزیر ریلوے شیخ رشید سے وزارت ریلوے کا قلمدان واپس لے کر انہیں وفاقی وزیر داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔


وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا قلمدان تبدیل کرکے انہیں اب وزیر انسداد و منشیات بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اعظم سواتی کو شیخ رشید کی جگہ وزیر ریلوے کا قلمدان دیا گیا ہے جب کہ مشیر خزانہ سے وفاقی وزیر  بننے والے حفیظ شیخ کو ایک بار پھر وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ آج کچھ یہ معاملہ کابنیہ میں ھوا کچھ لوگوں یہ بات معمولی لگ رہی ھے  کیون کہ ماضی میں کسی کو وزارت سے ہٹا کر نہی وزارت پر لگا دینا عام بات ہے ۔

لیکن یہ سوال اتا ہے کہ کیا یہ وزیر اس وزارت کے بارے میں ماہر بھی ھوتے ہے کہ نھہں اس  کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں ایک بیوکریٹ  کی ڈمی موجود تھی ۔ جس میں ان کے الفاظ دل کو لگ گے کہ ایک دس پاس کسی دور گاوں کا کوئی آدمی پیسوں کے زور پر ایم این  اے بن کر اسمبلی میں ا جاتا ہے ۔  اور وہی ایم این اے ،ایم پی اے پھر وزیر بن جاتا ہے ۔

اور ھم لوگوں اور پورے محکمے کو ان کو جی سر جی سر کرنا پڑتا ہے ۔ اور کئی کئی فایلیں ان کی میز پڑی رہتی ۔ ۔ چلے  کم پڑھے لکھے وزیر ایک طرف ، لیکن وزراتوں کے ردو بدل  کی طرف اتے ہے ۔ ایک وزیر اطلاعات و نشریات  کا ہے ، جب اس کے پاس یہ وزرات  ھوتی یے وہ اپنے آپ کو اس وزرات کا علم بردار سمجتا یے ۔ پھر ناگہانی وجہ کی بنیاد پر اس کی وزرات تبدیل کر دی جاتی یے ۔ اور اسں کو جیل خانہ جات یا ٹیکنولوجی کا ورزیر بنا دیا جاتا ہے ۔ پھر اچانک ان کے اندر ان وزرتوں کے ماہر پیدا ھو جاتے ہے ۔ اگر ایک آدمی ماضی میں خزانہ کا وزیر رہے چکا ہے اور آپ اس دور کو بد ترین دور کہتے ہے تو اس دور کہ وزیر کو خزانہ کا قلم دان دینا  حریت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :