حقوق نسواں اور ہمارا معاشرہ

بدھ 18 نومبر 2020

Mohammad Ammar Qureshi

محمد عمار قریشی

جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
ویسے تو ہم ہر بات اپنے تجربات کے پیش نظر لکھتے ہیں لیکن اگر ان باتوں میں احساس و جذبات نا ہوں تو وہ فقط لفظوں کے سوا کچھ نہیں لیکن جب ان الفاظ میں جذبات، احساس کو ساتھ شامل کیا جائے تو وہ نا صرف تحریر بلکہ دلوں پر اثر رکھنے والی ایک انقلابی سوچ اور بات بنتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی ہے۔

تحریر کرنے کا مقصد صرف اپنا نقطہ نظر لکھنا نہیں بلکہ ایک انقلابی اور بہتر سماج کی سوچ کو بیدار کرنا ہے آج بھی ایک ایسے موضوع پر گفتگو کریں گے جسے آپ نے میں عنوان ملاحظہ فرمایا ہے جو ایک بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے اور ہمارے معاشرے میں اس معاملے ہر نظر ثانی نہیں کی جاتی
جب بھی ہمارے معاشرے میں حقوق نسواں ''عورتوں کے حقوق'' کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو ایک مخصوص طبقہ ایسا ہے کہ جو مخالفت کرتا نظر آتا ہے اور ان معاملات کو طنز و طعنہ کا نشانہ بناتا ہے اور ان معاملات کو مذہبی رنگ دیکر نا صرف انشتار پھیلاتے ہیں بلکہ مزید نازیبا زبان استعمال کرکے اپنی تربیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ دین اسلام بہت ہی خوبصورت دین ہے اور اس دین میں تمام کے حقوق بچوں,بزرگوں،مرد،عورت،ہمسائے سے رشتہ داروں اور پوری انسانیت کے حقوق کا درس ملتا ہے اور سب کے حقوق قرآن و سنت سے ثابت ہیں
اسلام بہت ہی خوبصورت دین ہے، اس کا مقصد دنیا میں عدل اور انصاف کے اصولوں پر مبنی ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں ہر حقدار کو اس کا پورا حق ملے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے۔

تاکہ حضرات انسان اس دنیا میں حیات کے لمحات امن و سکون سے بسر کرسکیں۔ اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اور سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں،خرابیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا اسلام نے ان تمام جاہلانہ رسومات کی زنجیر کو چاک کردیا جو عورت کی عزت و احترام کے منافی تھی اور عورت کو وہ حقوق دئیے جس سے وہ معاشرے میں اسی عزت و تکریم سے زندگی بسر کر سکے اسلام کی آمد سے عورتوں پر سے ظلم و زیادتی بادل چھٹ گئے اور انکی عزت و تکریم کا آفتاب بلند ہوگیا
دین اسلام میں عورتوں کی عزت افزائی

اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
''اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔“
2: دین اسلام سے قبل اگر کسی گھر میں لڑکی کی پیدائش ہوجاتی تو اسکو زمین میں دفن کردیا جاتا تھا جو کہ اسکی عزت و تکریم کے منافی تھی جس کو دین اسلام نے ختم کیا
3: اسلام عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ”ولی الامر“ کی طرف سے ملے گی۔


عورتوں کے مسائل
عزیزان من! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ دین اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق دئیے ہیں اور کس عزت و تکریم سے سرفراز فرمایا ہے لیکن اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ثانی کریں تو اندازہ ہو کہ قلیل شہری اور کثیر دیہی عورتیں بیشمار مسائل کا شکار ہیں اگر پہلے گفتگو کریں شہری عورتوں کے مسائل پر
شہری عورتیں
سب سے پہلے معاملات تعلیم میں والدین اپنی صاحبزادیوں کو زیادہ پڑھانا مناسب نہیں سمجھتے اور صرف پیسوں کا ضیاع کہتے ہیں اور اس جاہلانہ سوچ کیساتھ انکی تعلیم کا نقصان اور تربیت میں کثر چھوڑتے ہیں کہ سسرال جاکر کونسا نوکری کے فرائض سرانجام دینے ہیں جبکہ وہ اس بات سے بلکل لاعلم ہیں کہ تعلیم نوکری کے لئیے نہیں بلکہ تربیت اخلاق تہذیب کے پیش نظر حاصل کی جاتی ہے اور تعلیم یافتہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے اور تعلیم سے وہ اپنے مسقبل کیساتھ اپنی اولاد کی تربیت بھی نا صرف اعلی بلکہ انکے مستقبل کو بھی سنوار سکتی ہے
2: شہری عورتیں جو کہ اپنے والدین کی عزت و تکریم کے خاطر معاملات نکاح میں اپنی رائے تک دینے سے قاصر ہوتی ہیں جبکہ انکا تعلق جوڑتے وقت والدین ہرگز اپنی صاحبزادیوں سے انکی رضامندی کے بارے میں سوال نہیں کرتے
3: ایک مظاہرہ جہالت یہ بھی ہے کہ کچھ احباب لڑکی والوں کو اپنا بینک بیلنس اور اے ٹی ایم سمجھتے ہیں جوکہ انکی شادی کے وقت انکے والدین سے جہیز کی لعنت کی نا صرف شرط رکھتے ہیں بلکہ اپنے مطالبات رکھتے ہیں کہ اگر اتنا سامان دیا جائے تو رشتہ منظور ہے جس وجہ سے ایک تعداد غریب خواتین کی غیرشادی شدہ ہے
4: شادی بعد ویسے ہی عورت پر ذمیداریوں کا وزن بڑھ جاتا ہے ایسے میں اگر گھریلو معاملات خراب ہو اور وہ صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے تو بھی شوھر یا ساس اپنے گھر کی تمام پریشانیوں کی وجہ اس بیٹی کو بنا کر اس پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے اور پھر طلاق دیکر انکی زندگی محال کردی جاتی ہے جس وجہ سے نا انہیں معاشرہ قبول کرتا ہے اور نا ہی ان کا اپنا گھر۔

اپنے گھر میں بھی ہر کسی سے طعنے سنتے ہوئے اپنی زندگی کو زمانے پر بوجھ ماننے لگ جاتی ہیں
دیہی عورتیں
عزیزان من! شہری عورتیں اور شہری معملات پھر تعلیم میں دیہات سے آگے ہونے کی بنا پر حد درجہ بہتر ہے لیکن دیہات میں عورتوں کو نا صرف گھر کے بلکہ اپنے باہر کے کام کاج بھی بذات خود سرانجام دینے ہوتے ہیں جس بنا پر ان کی زندگیاں زیادہ محال ہیں اگر بات ابتائیہ سے کیجائے تو آپ کو اندازہ ہوسکے گا کہ انکی زندگیاں کس حد تک محال ہیں
1: سب سے پہلے تو تعلیم
تعلیم میں دیہات کافی زیادہ پیچھے نظر آتا ہے کیونکہ وہاں پر وہ آسائیش اور وہ نظام۔

میسر نہیں ہوتا جو شھر میں ہے اور اگر کہیں تعلیمی ادارے ہوں تو وہاں تعلیم نام کی کوئی شہ میسر نہیں آتی جس بنا پر وہ تعلیم سے محروم ہیں
2: والدین کی توجہ
دیہات میں والدین کی اولاد پر عدم توجہی انکی تربیت پر گہرا اثر رکھتی ہے والد صبح سے اپنے روزگار میں اتنا مشغول ہوتے کہ اولاد کے لئیے وقت نہیں اور والدہ گھر کیساتھ کھیت و فصل کے کاموں کو سرانجام دے رہی ہوتی ہیں
3: کم عمری میں شادی
دیہات میں کم عمری کی شادی کا سلسلہ بہت عام ہے اولاد کے بالغ ہوتے ہیں یا بعض اوقات بالغ ہونے سے قبل ہی انکی شادی کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے انکی زندگیاں مشکلات کا شکار ہوتی ہیں اور ظلم و ستم کی انتہا تو یہ ہے کہ اگر کسی وڈیرے جاگیردار کو نابالغ بچی پسند آجائے تو اپنے رعب و پیسوں کی لالچ سے اس بچی سے نکاح کرلیتا ہے اور والدین خوف و ڈر کی وجہ سے اپنے سر خم کرتے ہوئے اظہار رضامندی کرلیتے ہیں
عزیزان من! یہ چند مسائل آپکے سامنے رکھے ہیں جبکہ مسائل کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن کچھ مسائل اپکے سامنے رکھنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ ہم اپنے معاشرے سے ان برائیوں کا خاتمہ کیا جائے اور یہ سب جب ہی ممکن ہے جں ہم اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ان مسائل پر اپنی آواز بلند کریں، خواتین کی تربیتی نشست رکھیں انکو ان مسائل پر سمجھائیں اور ان سب باتوں کا شعور دیں یہ سب لاشعوری کی وجہ سے ممکن ہے اگر ہم شعوری تربیتی نسشتوں کا انعقاد کریں ان خواتین تک رسائی حاصل کر کے ان کو ان مسائل کا حل دیں معملات سمجھائیں تو یقینی طور پر سماج میں واضح تبدیلیاں اور ایک سماجی انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :