جنسی زیادتی

جمعرات 19 نومبر 2020

Mohammad Ammar Qureshi

محمد عمار قریشی

عزیزان من وطن عزیز ملک خداداد پاکستان کے اندر ویسے تو بے شمار مسائل ہیں اور بے شمار موضوعات ہیں جن پر ہم گفتگو کر سکتے ہیں لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر گفتگو بہت کم کی جاتی ہے اور واقعات میں دن بدن اضافہ بھی ہو رہا ہے المیہ یہ ہے کہ جب کوئی ناگوار واقعہ پیش آتا ہے تو ہم صرف دو دن یا ایک دن ہاتھ پر کالی پٹی باندھ کر کسی جگہ پر کھڑے ہو کر احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں نعرے لگاتے ہیں لیکن کوئی عملی کردار ادا نہیں کرتے ہم فقط نعروں جلسوں اور جذبے کی قوم رہ گئے لیکن عمل اور کردار کی قوم سے بالکل خالی ہے عزیزان محترم آج جس موضوع پر گفتگو کریں گے وہ ایسا حساس موضوع ہے پھر اس کو آئے روز آپ کبھی نیوز چینلز کے ذریعے کبھی اخبارات کے ذریعے کبھی سوشل میڈیا کے ذریعے سب ملاحظہ فرماتے ہیں کہ سماعت فرماتے ہیں وہ موضوع وہ کبھی لاہور موٹروے کے حادثے کی صورت میں ہوتا ہے وہ بھی پیاری زینب کے ساتھ کبھی کشمور کی علیشاہ تو کبھی شہر حیدرآباد کی کوئی معصوم بچی کبھی چار سال کی چھوٹی بچی تو کبھی 27 سالہ 2 بچوں کی ماں اذیت کا مقام تو یہ ہے کہ کہ معاشرے میں ہمارا بھی انسان تو انسان یہاں تک کہ ایک بلی تک محفوظ نہیں یہ جنسی زیادتی کے مجرم اب فقط انسانوں تک نہیں بلکہ معصوم بیزبان پر بھی رحم نہیں کر رہے۔

(جاری ہے)

دوستان ذی وقار آپ کو اندازہ تو ہو ہی گیا ہوا کہ آج ہم کس موضوع پر گفتگو کرنے کے سامنے حاضر ہوئے ہیں وہ موضوع کہ جس کو جاننا ہم سب کے لیے انتہائی اہم ہے وہ وہ موضوع جنسی زیادتی انسانی ہے
عزیزان من یہ بات حقیقت ہے کہ جنسی زیادتی اور ریپ ایک ایسا خوفناک جرم اور ایک ایسا خوفناک عمل ہے کہ جس کا نشانہ بننے والے شخص کو نفسیاتی و ذہنی اذیت کا ناقابل تصور حد تک سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے اثرات برس ہا برس تک ختم نہیں ہوتے کسی انسان کا ریپ کیا جانا اسے نفسیاتی طور پر عموما? ایسے ذہنی دباؤ اور مسلسل دھچکے کی کیفیت میں ڈال دیتا ہے، جسے ماہرین پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی (PTSD) کہتے ہیں، جو ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری ہے۔

لیکن عزیزان من سوال یہاں پر یہ آتا ہے ایسی کیا وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر ایک مرد کسی عورت کے ساتھ ریپ یا جنسی زیادتی کرتا ہے حکومت وقت اس پر کیا کردار ادا کرتی ہے حکومت الوقت کا کردار ہونا چاہیے ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی ریپسٹ کے جرم کے اسباب کی تشخیص کے لیے اس عمل کی وجوہات کا ٹھوس تعین اور ان وجوہات کی شدت طے کرنا بہت مشکل ہے۔

تاہم کئی مختلف نفسیاتی اور طبی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ریپ کے مرتکب افراد میں کسی کا جسمانی یا نفسیاتی دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، وہ تقریبا? بیماری کی حد تک خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحانہ جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔وطن عزیز پاکستان میں حالیہ چند واقعات جو آپ کی اور میری نگاہوں سے آسمانوں سے گزرے ہوں وہ لاہور موٹروے کا واقعہ ہو کیا قصور میں کسی بچی کا ہو یا زینب کا ہو یا پھر ایک مسیحی برادری کی اور بچی علیشاہ کا،یا پھر نوکری کی لالچ دے کر خاتون کو اس کے بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہو ان واقعات میں اضافہ دن بدن ہوتا رہتا ہے آخر کیا وجہ ہے کہ اس پر ایک عملی کام سر انجام نہیں دیا جا رہا کیا وجہ ہے کہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ہمیں کیا چاہیئے کہ ان واقعات کو ہم روک سکیں اور اپنی بیٹیوں کو بچیوں کو چیزوں سے بچا سکیں اور ان ناگوار واقعات سے محفوظ رکھ سکیں۔

معذرت کے ساتھ ہماری حکومت کی اس معاملے پر ناقص کارکردگی کی وجہ سے آج تک میں ان تمام چیزوں پر قابو نہیں پا سکے اور پھر یاد آتا ہے کہ شاعر نے جو جملہ کہا
کہ بیچ کر تلواریں خرید لیے مصلے ہم نے
بیٹیاں لٹتی رہیں ہم دعا کرتے رہے
عزیزان من آج ہم بات کریں گے اس موضوع پر کہ ہم کس طریقے سے ان معاملات کو روک سکتے ہیں اور کس طریقے سے اپنے بچوں کو اس کی تربیت دے سکتے ہیں کہ وہ ان معاملات سے بچیں
عزیزان من پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ماہرین نفسیات کے مطابق یہ جنسی زیادتی کوئی ایسا جرم نہیں ہے کہ جس سے فقط نفسانی خواہش ہی پوری ہوتی ہو بلکہ یہ ایک ایسا جرم ہے کہ جس کی قانونی وضاحت بھی نہیں کی جاسکتی.ماہرین کے مطابق کئی جگہوں پر یہ بات بھی لکھی گئی ہے کہ یہ جو جنسی زیادتی کے مرتکب مجرم ہوتے ہیں ان کے دلوں میں خواتین کے لئے بغض نفرت کینہ اور حقارت بھری ہوتی ہے یہ عورتوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اگر کوئی خاتون ان کو جنسی تعلق قائم کرنے سے انکار کردیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کو چیلنج کر رہی ہیں ایسے لوگ ذہنی طور پر نفسیاتی ہوتے ان کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں اور کچھ اقسام ماہرین نفسیات نے جو لکھی ان میں سے یہ ہے کہ ایک تو وہ قسم ہے کہ جو عورت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

ایک قسم ایسی ہے کہ جو اپنی جنسی تسکین کے لئے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اس عمل کو کرتی ہیں اور ایک قسم بدلہ لینے کے لیے، ایک قسم ایسی ہوتی ہے جو صرف عورت کو تذلیل کرنے اور ان کی تضحیک کے لیے اس ظلم کو سر انجام دیتے ہیں۔
جنسی زیادتی سے کس طرح اپنے بچوں کو بچایا جائے
عزیزان محترم! سال میں 90 ہزار کیسز ایسے ہوتے ہیں جو کہ اندراج ہوتے ہیں جنسی زیادتی کے جب کے تعداد اس سے بھی زیادہ ہے فلوڈریا کی چائلڈ اسپیشلسٹ کا کہنا ہے کہ بچوں کو ان تمام معاملات سے بچانے کے لیے اپنی حفاظت خود کرنے کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام کرنا ہوگا امریکہ میں بچوں کو جنسی زیادتی سے بچانے کے لیے ان کو اپنی حفاظت خود کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کو یہ تمام معلومات فراہم کی جاتی ہے کہ جس میں ان کو اجنبیوں سے دور رہنے کی تلقین اچھے اور برے طریقے سے چھونے کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے جس کو گڈ ٹچ بیڈ ٹچ اور سیکرٹ ٹچ کہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ان واقعات کے اضافے کی وجوہات یہ ہیں یہ سب سے پہلے تو بچوں کو تعلیم نہیں دی جاتی نا ان کو سمجھایا جاتا ہے نہ ہی انہوں نے بتایا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اگر کسی کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آ جائے تو گیا تو کسی وڈیرے کے دباؤ میں یا اپنی عزت کو بچانے کے لئے اپنی عزت کو محفوظ رکھنے کے لیے کیوں کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے شخص کو حقارت کی نگاہ سے پورا معاشرہ دیکھتا ہے اس وجہ سے اپنے آپ کو بچانے کی غرض میں ملزمان اور مجرمان کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا نہیں جاتا جس سے ان کو مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ ان واقعات کو مزید رونما کرنے میں ان کے لیے آسانی ہوتی اور وہ باعزت بری ہو کر ان مزید واقعات کو پیش کرتے ہیں اور جب تک ان کو عبرتناک سزا نہیں دی جائے گی وہ اس عمل کو جاری رکھیں گے کیونکہ ضروری ہے کہ کسی ایک کو سزا دی جائے اور دوسروں کو اس کے لئے عبرت کا نشان بنایا جائے
دوستان محترم! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم پاکستان کے اندر اپنے بچوں کو اپنی بیٹیوں کو اس بات کی تربیت دیں ان کو سجھائیں ان کو سکھائیں کہ وہ کس طریقے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتی ہیں وہ اجنبی لوگوں سے دور رہیں ان کو سکھایا اور سمجھایا جائے کہ کس طریقے سے اگر کوئی ان کو ہاتھ لگاتا ہے اس طریقے سے چھوتا ہے تو اس سے بچیں اور کیا اچھی نظر اور بری نظر میں فرق اور کیا اچھے طریقوں اور برے طریقوں میں فرق ہے اور وہ اپنے آپ کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کس طرح اپنا خود کا سیلف ڈیفنس کرسکتی ہیں خود حفاظت کر سکتی ہیں۔

دوستان محترم! ہم اپنے بچوں کو ہر طریقے کا علم دیتے ہیں لیکن ہم انہیں اگر کسی چیز کا علم نہیں دیتے تو وہ صرف اس طرح کے جنسی معاملات اور جنسی حوالے سے جو تعلیم ہیں وہ نہیں دیتے کیونکہ ہم خود شرم محسوس کرتے ہیں جبکہ اس میں شرم کی کوئی بات نہیں ہے جب تک ہم اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دیں گے وہ اپنا آپ کی حفاظت کیسے کریں گے ایک سوالیہ نشان آپ لوگوں کی نظر چھوڑ کر جاتا ہوں خود ذرا ان باتوں کو محسوس کریں ان باتوں کو سمجھیں کہ جب یہ جنسی زیادتی کا معاملہ آپ کی دہلیز پر آئے آپ کی بیٹی آپ کی بچی پر آئے تو جب بھی آپ کے اس طرح کی خاموشی اختیار کریں گے؟ جی ہرگز نہیں! کیونکہ اپنی بیٹی سب کو عزیز ہوتی ہے لیکن جس کسی ساتھ یہ زیادتی ہوتی ہے وہ بھی کسی کی ماں بہن ہوتی ہے اور اور ہم بحیثیت پاکستان اس بات پر مطالبہ حکومت وقت سے کرتے ہیں کہ جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو سرعام سزا دی جائے تاکہ وہ دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بن سکے اور صرف باتیں نہ کی جائیں بلکہ عملی کردار ادا کیا جائے اور عملی سزائیں دی جائے تاکہ اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ نہ ہوسکے اور تعلیمی نصاب کے اندر واضح تبدیلیاں کرتے ہوئے اس علم کو اس میں ڈالا جائے تاکہ ہم مزید آنے والے ناگوار واقعات سے محفوظ کر سکیں اپنی نسلوں کو اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہماری ماں بہن بیٹی بیوی ہوں اور ہماری عزتوں کی حفاظت فرمائے اور ہمیں عقل و شعور عطا فرمائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :