خواجہ سراء اور انکے حقوق

جمعہ 13 نومبر 2020

Mohammad Ammar Qureshi

محمد عمار قریشی

جنس ثالث(خواجہ سراوٴں)پر تحریر کردہ کالم دیکھتے ہی شائد آپکے ذہن میں یہ سوال آئے کہ"اس قسم کی تحریر کرنے کی آخر کیا ضرورت پیش آئی"
بلکل فطری تقاضوں کے نزدیک یہ سوال آنا بھی بنتا ہے کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ اسے اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس نا ہو تو وہ اسکے بارے میں احساسات کھو بیٹھتا ہے مگر یہ تحریر چند فوائد اور پیغام کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔


اس تحریر کے مطالعہ سے آپکو اللہ پاک کی نعمتوں کے اعتراف اور اس کی شکر گزاری کی طرف مائل کرے گی اور آپکو یہ معلومات بھی فراہم کرے گی کہ اگر کسی کے یہاں ایسی اولاد پیدا ہوجائے تو وہ کیا کرے اور انکا شرعی حق کیا ہے
اللہ پاک نے اس کائنات و ارض زمین پر چرند پرند،جن و انس،حور و ملائک،حیوانات و نبتات کیساتھ بیشمار مخلوقات کو تخلیق فرمایا ہے اور رب ذلجلال کی کسی بھی تخلیق میں گمان عیب نہیں ہے اور نا ہی ہوسکتا ہے رب ذلجلال نے ہر مخلوق کو بیعیب بنایا ہے اور ان تمام ہی مخلوقات میں حضرات انسان ابن ادم کو"اشرف المخلوقات" کے شرف سے نوازا ہے جس کے معنی مخلوقات میں افضل اور شرف رکھنے والے کے ہیں۔

(جاری ہے)

اللہ پاک نے حضرات انسان کو بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے ان نعمتوں پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔ حضرات انسان کو اللہ پاک نے عقل و نفس جیسی نعمت سے بھی مالامال فرمایا جس کے استعمال سے وہ اچھے برے صیح و غلط میں فرق کو جان سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے اور اپنے آپ کو بیشمار برائیوں اور گناہوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
حضرات انسان میں3 طرح کے جنس پائے جاتے ہیں مرد عورت اور خواجہ سراء ہیں
دنیا اور اُس کی مخلوقات میں اِس طرح کے بعض نقائص جو اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں، یہ بطور آزمائش رکھے ہیں ۔

ایسے اِنسان جو کسی اعتبار سے معذور پیدا کئے گئے ہیں یہ ان کے صبر کا امتحان ہے اور دوسرے اِنسانوں کے لیے یہاں اُن کو دیکھ کر اپنے پروردگار کی شکرگزاری کا حکم ہے ،اور تمام اِنسانیت کے لیے ایک عمومی درس اِس طرح کے نقائص کے وجود میں یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر خوبیوں ، خصائص اور نعمتوں کے باوجود بہر حال دار النقائص ہے،دار الکمال نہیں ہے ۔

خواجہ سراء کا شمار بھی حضرات انسان میں ہی ہوتا ہے یہ بس اسی طرح سے ہیں جس طرح کچھ لوگ پیدائشی معذور ہوتے ہیں یہ نا ہی تو رب ذلجلال کی کوئی دوسری مخلوق ہے اور نا ہی کوئی دوسری قوم۔ خواجہ سرا کو دیگر قوم یا مخلوق سمجھنا تہذیب و ادب کے خلاف ہے انکا ادب و لحاظ بھی اسی طرز سے کیا جائے گا جس طرح ہم پیدائشی معذور حضرات کا کرتے ہیں
 یہ لوگ بھی معاشرے میں اسی رویے کے حقدار ہیں جس طرح دیگر حضرات انسان ہیں یہ لوگ بھی معاشرے میں باعزت طرز سے اپنی زندگیوں کو بسر کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں موجود کچھ درندہ صفت لوگ اس بات کو سمجنے سے قاصر ہیں کہ یہ بھی حضرات انسان میں ہی شامل ہیں اور ان حضرات کے بھی حقوق ہیں اسلام میں خواجہ سراؤں کے بھی وہی حقوق ہیں جو ہم سب کے ہیں،بہت سارے خواجہ سرا ایسے ہیں جن کے علاج کرنے کے بعد یا تو وہ مکمل مرد بن سکتے ہیں یا پھر عورت خواجہ سراء دو طریقے کے ہوتے ہیں1: مائل بمرد اور مائل بعورت اب جو مائل بمرد ہیں ان پر مردوں والے حقوق اور جو مائل بعورت ہیں ان پر عورتوں والے احکام جاری ہونگے۔

لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں ان سے اچھوتوں والا سلوک ہوتا ہے جو انتہائی غیر مناسب ہے خواجہ سراء کے حوالے سے مزید گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں ہمارے لئے یہ جاننا انتہائی اہم ہے کہ لفظ"خواجہ سراء " کے معنی کیا ہیں اور یہ لفظ کیوں استعمال کیا گیا ویسے تو معاشرے میں ان حضرات کے لئے غیرمناسب الفاظ بھی استعمال کئے جاتے ہیں جیسے کہ"کھدڑا" یا"ہیجڑا" لیکن چونکہ اس لفظ سے انکی دل آزاری کا خدشہ تھا تو اس وجہ سے لفظ"خواجہ سراء " کا انتخاب کیا گیا
خواجہ تو ایک معزز لقب ہے اور سرا محل یا حویلی کو کہتے ہیں۔

خواجہ فارسی کا لفظ ہے اور اس کی جمع خواجگان ہے۔ خواجہ سردار کو کہتے ہیں۔خواجہ سرا وہ غلام جو نامرد ہو اور گھر میں زنانہ کام کرتا ہو۔
خواجہ سراوٴں کے حقوق
ہمارے معاشرے میں خواجہ سراوٴں کی اکثر و بیشتر انکے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اور انکے ساتھ نہایتی غیر مناسب رویہ اختیار کیا جاتا نگاہ حقارت سے دیکھنے کے ساتھ انکو جنسی تسکین کا ذریعہ مزہ و لطف کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے انکو گھر سے بیدخل کردیا جاتا ہے وراثت میں حق سے محروم رکھا جاتا ہے اپنی شادی بیاہ کی تقریبات میں انکو رقص کے لیے بلایا جاتا اور بیحد طوفان بدتمیزی برپاہ کیجاتی ہے اور یہ سب جب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہم ان کو ان کے حق سے محروم کرتے ہیں اپنے گھر سے بیدخل کرکے لاتعلقی کردیتے ہیں ایسے میں افلاس انکا زندہ رہنا محال کردیتی ہے جس بنا پر انکو یہ راہ اختیار کرنی پرتی ہے وگرنہ آپنی عزت نیلام کرنے کا کسی کو شوق نہیں ہوتا۔

اگر ہم انکو اسلام و شریعت کی مطابق انکا حق دیں تو یہ کبھی اس طرح فحش و برے کاموں کی راہ کو اختیار نا کریں اور اپنی عزت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ۔دین اسلام میں انکو کیا حقوق دیئے چند ملاحظہ کیجئے
1: نماز میں انکی ھیئت اور ستر وغیرہ عورتوں کی طرح ہوگا
2: اگر باجماعت نماز پڑھیں تو انہیں مردوں کے پیچھے کھڑا کیا جائے گا
3:ان کے لئے ریشم و ناجائز زیور پہننا ناجائز ہے
4: ان کے لئے نامحرم کیساتھ خلوت اختیار کرنا حرام ہے
5: اگر یہ مرجائیں تو انکا احرام عورتوں والا ہوگا
6: امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک وراثت کے مسئلے میں عورتوں کے حکم میں ہونگے
قصدأ خواجہ سراء بننا:
جہاں ہم خواجہ سراTوں کے حقوق کی گفتگو کر رہے ہیں وہیں معذرت کیساتھ ہمارے معاشرے میں یہ المیہ بھی پایا جاتا ہے کہ کچھ لوگ قصدأ جواجہ سراء بھی بن جاتے ہیں ۔

قدرتی خواجہ سراء ہونا کوئی جرم نہیں وہ رضا الہی رب ذلجلال کی رضا ہے ۔لیکن شریعت نے قصدأ خواجہ سراء بننے والے یعنی مرد کا عورت کا حلیہ اور عورت کا مرد کا حلیہ اختیار کرنے والے پر لعنت کی ہے۔
 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر بھی لعنت کی ہے یعنی اللہ نے جس کو جیسا بنایا ہے اسکو ویسا ہی دکھنا چاہئے
خواجہ سراوٴں کو نگاہ حقارت سے دیکھنا
 اللہ تعالی تکبر کو پسند نہیں فرماتا اسی لیئے انکو حقیر سمجھنا اللہ پاک کی ناراضگی کا سبب بھی بن سکتا ہے یہ بھی اللہ تعالی کے ہی بندے ہیں اور اللہ پاک کی ان پر کرم نوازی ہوتی ہے اللہ پاک کا ایک خواجہ سراء کیساتھ کرم نوازی کا معاملہ ملاحظہ فرمائیں۔


عبد الوھاب بن عبدالمجید ثقفی روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک جنازہ دیکھا جسے تین مرد اور ایک عورت اٹھائے ہوئے تھے میں نے یہ دیکھ کر عورت کی جگہ لے لی۔ ہم سب قبرستان پہنچے اور جنازہ پڑھ کر تدفین کردی ۔میں نے اس عورت سے دریافت کیا کہ یہ تمہارا کون تھا؟ اس نے جواب دیا میرا بیٹا تھا۔ میں نے پوچھا تمہارا کوئی پڑوسی نہیں؟ اس نے جواب دیا ہیں تو سہی مگر انہوں نے اسکو حقیر سمجھا کیونکہ یہ جنس ثالث(خواجہ سراء ) ہے یہ بات سنتے ہی مجھے رحم آگیا اور میں اس خاتون کو گھر لے گیا پیسے،گندم اور کپڑے وغیرہ دیئے۔

رات جب میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہے میں نے پوچھا کہ"تم کون ہو" کہنے لگا میں وہی خواجہ سراء ہوں جس کی صبح آپ نے تدفین کی تھی، اللہ پاک نے مجھے بخش دیا کیونکہ لوگ مجھے حقیر سمجھتے تھے۔ اس روایت کے پیش نظر ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم کسی کو حقیر نا سمجھیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں صیح و سالم بنایا ہے
خواجہ سراوٴں کے لئے حکومتی کردار
حکومت پاکستان و عدلیہ پاکستان نے خواجہ سراوٴں کو مساوی شہری حقوق دینے سرکاری ملازمتوں میں حصہ دینے شناختی کارڈ کا اجراء دینے اور تمام شہری سہلویات دینے اور انکے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم دیا ہے جو کہ انکی ہمت افزائی کا باعث ہوگا۔

ہمیں بھی چاہیے کہ ہم معاشرے میں ان کی عزت افزائی کریں اور پاکستان کے قانون اور شریعت کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے ان کو ان کے بنیادی حقوق دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :