ماں کی عظمت

ہفتہ 17 جولائی 2021

Mohammad Burhan Ul Haq Jalali

محمد برہان الحق جلالی

مامتا کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔ ماں خلوص ، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے ۔ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے مگر اپنے اندر ساری کائنات کو سمیٹے ہوئے ہے ۔ لفظ ماں دنیا کی جتنی زبانیں ہیں جس بھی زبان میں بولا جائے ماں کے لفظ میں پیار بھری مٹھاس ہے ماں دُنیا کا وہ پیارا لفظ ہے جس کو سوچتے ہی ایک اخلاص و محبت  پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے ۔

اس کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈے ساۓ کی مانند ہے ۔ چلچلاتی تند و تیز دھوپ میں اس کا دستِ شفقت و محبت شجرِسایہ دار کی طرح ایک سائبان بن کر اولاد کو آرام و سکون کا احساس دلاتا ہے ۔  ماں خود بے شک کانٹوں پر چلتی رہے ، مگر اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے اور دُنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹ کر اپنے پھولوں کی مانند لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہے اِس سے زیادہ پیار و محبت کرنے والی ہستی دُنیا میں پیدا نہیں ہوئی ،آندھی چلے یا طوفان آئے، اُس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آتی نہ وہ کبھی احسان جتاتی ہے
انسانی معاشرے کا باہمی ربط و ضبط صرف ماں ہی کے طفیل ہے۔

(جاری ہے)

ماں کی آنکھ سے چھلکا ہوا ایک آنسو بحر اوقیا نوس سے گہرا ہوتا ہے:۔ٹوٹتے ہوئے پسماندہ معاشرے پوچھتے ہیں کہ جو حاکم سزا دیتے ہیں وہ ماں کی دعا کیوں نہیں دے سکتے؟ ماں نے تھپڑ مارا بچہ ماں سے لپٹ گیاماں نے اٹھایا اور چوم لیا۔ جبکہ حاکم نے سزا دی تو رعایا باغی ہو گئی۔باپ کی جائیداد کی وجہ سے آپس میں تنازعے اور نفرت پیدا نہ کرو اور ماؤں کے پیار و محبت کے وارث بن جاؤانسانیت سکھی ہو جائے گی۔

ماں کا کوئی نعم البدل نہیں جسطرح اللہ کا کوئی نعم البدل نہیں۔ماں بچوں کے لئے توحید کا سمبل ہے بہت سے بچوں کی ایک ماں ہو یا پھر ایک ماں کے بہت سے بچے ہوں ماں تو ایک ہی رہے گئی۔جوقیمتی کپڑے پہناتی ہیں وہ مائیں ہوتی ہیں جبکہ جو قیمتی کپڑے منگواتی ہیں وہ ہونے والی مائیں ہوتی ہیں۔جوماں کو نہ سمجھ سکا وہ مقام توحید کو نہ سمجھ سکا:۔
جو ماں کا نافرمان ہو جاتا ہے وہ آہستہ آہستہ اللہ رب العزت کا نافرمان ہوجاتا ہے۔

ویسے تو دنیا نے ماں کیلئے ایک خاص دن کا تعین کر دیا ہےچونکہ ہم حضورِ اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے امتی ہیں اور اسلام ہی ہمارا مکمل مذہب ہے اس لئے یہاں یہ ذکر ضرور کروں گا کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیا کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے پوری زندگی، پوری زندگی کا ہر سال ، سال کاہر مہینہ، مہینہ کاہر دن اور دن کا ہر ہر لمحہ ہر ہر منٹ ہر ہر سیکنڈ ماں کے نام ہونا چاہئے۔

مدرز ڈے تو اغیار کی روایت ہے جہاں نہ رشتوں کا تقدس ہے اور نہ ہی کوئی وقعت و اہمیت ہے۔ جہاں اولاد صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود اپنے ماں باپ کو بے وقعت سمجھنے لگتے ہیں  ان کی کوئی تعظیم و توقیر نہیں کرتےاور ماں کی قربانیوں اور پر خلوص محبت کو ٹھوکر مار کر ’’اولڈ ہاؤسز‘‘میں رکھ دیتی ہے اور سال میں ایک دن اپنی ماں اور باپ کے نام کرکے اپنے فرض سے منہ پھیر لیتے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہماری یہ روایت نہیں ۔

اللہ و رسول کی طرف سے ماں کی محبت و شفقت کے مجسم روپ کوعزت و تکریم دینے کی تلقین کی گئی ہے اور ماں کی محبتوں اور خلوص کی پاسداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر ہمیں ماں باپ کے آگے اُف تک کرنے سے منع کیا گیاہے۔
 ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و سکون، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے
 ایک آدمی رسول خدا ﷺکےپاس آیا اور عرض کیا  کہ کون زیادہ حقدار ہے جس کے ساتھ میں نیک سلوک کروں؟ تو آپ نے فرمایا : تیری ماں۔

اس نے دوبارہ پوچھا کہ ماں کے بعد؟ تو آپ ص نے جواب دیا تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا اس کےبعد؟  پھر بھی آپ ص نے جواب دیا کہ تیری ماں۔ اس نے وہی سوال پھر تکرار کیا تو آپ ص نے فرمایا تیرا والد
حضرت ابوطفیل رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے’’یعنی میں نے ’’مقام جِعِّرانہ‘‘ میں رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا کہ گوشت بانٹ رہے تھے۔ اتنے میں ایک خاتون آئی اور نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے بالکل قریب چلی گئی۔

آپ ﷺ نے ان کیلئے اپنی چادر مبارک بچھادی، میں نے لوگوں سے کہا! یہ صاحبہ کون ہیں؟ لوگو نے بتایا یہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ہیں۔ انہوں نے حضور پاک ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ اندازہ لگائیے کہ حضور اکرم ﷺ اپنی رضاعی ماں کا احترام اور خدمت کا خیال کتنا رکھے ہیں۔
ایک تاجدار ختم نبوت ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! والدین میں سے کس کا حق بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا اسی کا جس نے تجھے اپنے دونوں پہلوؤں کے درمیان اٹھائے رکھا ہے
 موجودہ عہد میں والدین سے بد سلوکی،بد زبانی،طعنے دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔

اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے،باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔مغرب میں اولاد اپنے ماں باپ کو اولڈ ہومز میں داخل کروا دیتے ہیں ،مغرب کی پیروی میں ایسا اب پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے ،پاکستان جو کہ ایک اسلامی ملک ہے اس میں بھی اولڈ ہوم بن چکے ہیں ،جہاں بوڑھے اپنے دکھ درد ،داستان حیات سنا سنا کر وقت گزاری کرتے ہیں
ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور والدین سے نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو  آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو ۔

اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو،  اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، رسول اللہ نے باپ سے پہلے ماں کا ذکر کیا
خوانساری، جمال‏الدین محمد. شرح غررالحکم و دررالکلم. تہران: دانشگاہ تہران،  1373
ماں اللہ رب العزت کا ایسا عطیہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے بعد اپنی اولاد کے دل کا حال بہت جلد جان لیتی ہے۔

اولاد کے دل میں کیا چل رہا ہے ماں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔
ایک بار ایک صحابی حضور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ !میں نے اپنی ماںکو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے ، کیا میں نے ماں کا حق اداکر دیا ؟ آپ   نے فرمایا: نہیں ، تُونے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا ۔
ماں کا حق باپ کے حق سے زیادہ ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، میں نے رسول اللہ سے عرض کیا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا۔ میں نے عرض کیا: اور مر د پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا(بسند حسن حاکم نے اسے روایت کیا ہے) ۔
ماں باپ دونوں کی تعظیم و توقیر اور خدمت کرنی چاہیئے اگر حالات نہ گفتہ بہ ہوں تو فتاویٰ عالمگیری میں ہے ،جب آدمی کیلئے والدین میں سے ہر ایک کی رعایت مشکل ہوجائے مثلاً ایک کی اطاعت  و فرمانبرداری سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تعظیم و توقیرمیں باپ مقدم ہے اور خدمت میں والدہ مقدم ہوگی حتیٰ کہ اگر گھر میں دونوں اس کے پاس آئے ہیں تو باپ کی تعظیم کیلئے کھڑا ہوجائے اور دونوں نے پانی مانگا اور کسی نے اس کے ہاتھ سے پانی نہیں پکڑا تو پہلے والدہ کو پانی پیش کرے ۔

رَبِّ ا رْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔اور ہمیں اپنے ماں باپ کا فرماں بردار بنا اور ان کے لئے ہمیشہ دعا کرے ۔ زندہ ہوں تو آسان زندگی کیلئے  صحت و عافیت اور لمبی زندگی کیلئےاور اگر انتقال ہوگیا ہو تو مغفرت کی دعا کرے اور درجات کی بلندی کی دعا کرے ۔ ماں جیسی عظیم نعمت کی ہمیشہ قدر کرنی چاہئے۔   
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کی تعظیم و توقیر اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ،ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :