
حضرت داتاعلی ہجویری رحمہ اللہ کی تعلیمات
ہفتہ 25 ستمبر 2021

محمد برہان الحق جلالی
حضرت داتا علی ہجویریؒ کا نام سید ابوالحسن علی بن عثمان ہے اور آپ حسنی حسینی سید ہیں۔
(جاری ہے)
آپ کی والدہ بہت بڑی ولی اور ماموں بھی بہت بڑے ولی تھے اور تاج اولیاء کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ آپ کی والدہ اور ماموں کا مزار افغانستان میں مرجع خلائق ہے
حضرت علی ہجویری 401ھ یا 440ھ میں غزنی افغانستان میں پیدا ہوئے۔
لاہور بڑا مقدس شہر ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اپنے مکتوبات حصہ اول میں فرماتے ہیں یہ شہر لاہور ہندوستان کے تمام شہروں میں قطب ارشاد کی طرح ہے۔ اس شہر کی برکت تمام ہندوستان کے شہروں میں پھیلی ہوئی ہے۔اتنا بڑا ولی پاکستان کے شہر میں جلوہ افروز اور سایہ فگن ہے۔ یہاں ایک ایسا اللہ کا ولی سویا ہوا ہے جس کی برکت حاصل کرنے کے لئے خواجہ غریب نوازؒ سفر کرتے ہوئے حاضر ہوئے اور داتا گنج بخشؒ کے مزار پر انہوں نے چلہ کیا۔ داتا صاحب کی بڑی عظمت ہے۔ ۔ بڑے کفار نے داتا صاحبؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا آپؒ کی کتاب کشف المحجوب ہے اس کے معنی ہیں چھپے ہوئے کو ظاہر کرنے والی، اللہ کرے ہر مسلمان اس کا مطالعہ کرے اور پڑھ کر اپنی اصلاح کرے۔ آپؒ نے اور بھی کتابیں لکھی ہیں۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ سفر کرتے ہوئے داتا صاحبؒ سے فیض حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوئے۔ یہاں چلہ کاٹا۔ آپؒ 588ھ میں تشریف لائے اور 589ھ میں چلے گئے۔ داتا اور غریب نواز کے معنی قریب قریب ہیں۔ داتا کے معنی ہیں دینے والا اور غریب نواز کے معانی غریبوں کو نوازنے والا۔ غریب نوازؒ نے آپ سے متاثر ہو کر ایک شعر کہا
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
نامور صوفی بزرگ ،داعی اسلام حضرت سید علی ہجویریؒ متقدمین اولیاء میں سے ہیں۔آپ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں سے چند اقتباسات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ قول معروف سے مراد نیک بات کہنا ہے
اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو نیک عمل اور اللہ کی طرف دعوت دے۔
’’گفتار‘‘ کی مثال شراب کی مانند ہے۔یہ عقل کو سست کردیتی ہے اور جسے اس کی لت پڑجائے،وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا،چناںچہ اہل طریقت نے بھی یہ جانتے ہوئے کہ گفتار باعث آفت ہے،بجزو ضرورت بات کرنے کے،ہمیشہ گریز کیا ہے۔
قوت گویائی جتنی بڑی نعمت ہے اتنی ہی خرابی کا سرچشمہ بھی ہے، اسی لیے آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’اپنی امت کے متعلق میں جس چیز سے ڈرتا ہوں،وہ اس کی زبان ہے۔‘‘
ارشادِ نبوی ﷺہے:من صمت نجا ’’جس نے خاموشی اختیار کی،اسے یقیناً نجات حاصل ہوگی۔‘‘
٭حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے انعامات اور اپنی نوازشات پر شکر اور حمد و ثناء کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: ’’مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ’’میں پکارنے والے کی فریاد سنتا ہوں، جب وہ پکارتا ہے۔‘‘
صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں سنتِ رسولﷺ۔
ملک کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔حکمراں جب بےعلم ہوں،علما جب بے عمل ہوں اور فقرا جب بے توکل ہوں
حضرت داتا گنج بخشؒ کے نزدیک کلام دو قسم کا ہے اور خاموشی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ایک کلام کی بنیاد حق پر ہوتی ہے اور دوسرے کی بنیاد باطل پر۔اسی طرح ایک خاموشی تو مقصود حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے اور دوسری غفلت پر مبنی ہوتی ہے۔ کلام یا خاموشی کے وقت ہر شخص کو اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر کلام کی بنیاد حق پر ہے تو کلام بہتر ہے،ورنہ خاموشی کلام سے بہتر ہے۔
حضرت داتا گنج بخشؒ کے نزدیک خاموشی کے آداب یہ ہیں کہ خاموشی اختیار کرنے والا جاہل نہ ہو۔جہالت پر مطمئن نہ ہو اور غفلت میں مبتلا نہ ہو،
آپ نے مریدکیلئے فرمایا کہ مرید کو چاہیے کہ رہنمائوں کے کلام پر دخل انداز نہ ہو، اس میں تصرف نہ کرے‘ بے سروپا اور سطحی گفتگو سے پرہیز کرے۔جس زبان سے کلمۂ شہادت پڑھا ہے اور اقرار توحید کیا ہے،اسے جھوٹ اور غیبت کے لیے استعمال نہ کرے۔ مسلمانوں کا دل نہ دکھائے۔ درویشوں کو ان کا نام لے کر نہ پکارے، جب تک اس سے کچھ نہ پوچھا جائے
حضرت داتا گنج بخشؒ نے تین قسم کے لوگوں سے دور رہنے کی ہدا یت فرمائی ہے ۔غافل علما سے ،جنہوں نے دنیا کو اپنے دل کا قبلہ بنا لیا ہو۔ریاکار فقرا سے، جو فقط اغراضِ نفسانی کے لیے لوگوں سے جاہ وعزت کی تمنا رکھتے ہوں اور جاہل صوفی سے، جس نے نہ تو کسی مرشد کی صحبت میں رہ کر تربیت پائی ہو،نہ کسی استاد سے ادب سیکھا ہو۔
دین دار لوگوں کو خواہ وہ کیسے ہی غریب و نادار ہوں ، چشمِ حقارت سے نہ دیکھو کہ اس سے فی الجملہ اللہ تعالیٰ کی تحقیر لازم آتی ہے۔
ایثار یہ ہے کہ تواپنے بھائی کا حق نگاہ میں رکھے اور اس کے آرام کی خاطر خود تکلیف اُٹھائے۔
بوڑھوں کو چاہیے کہ وہ جوانوں کا لحاظ رکھیں، اس لیے کہ ان کے گناہ کم ہیں،جب کہ جوانوں کو چاہیے کہ وہ بوڑھوں کا ادب کریں، اس لیے کہ وہ جوانوں سے زیادہ عابد وزاہد اور تجربہ کار ہیں۔
جو علم کو دنیاوی عزت ووجاہت کے لیےحاصل کرتاہے،درحقیقت وہ عالم کہلانےکا ہی مستحق نہیں، کیونکہ دنیاوی عزت و جاہ کی خواہش کرنا بجائے خود از قبیلِ جہالت ہے۔
حضرت داتا گنج بخش ؒ کی سنہری تعلیمات آج بھی عبرت و نصیحت کا خزینہ اور بے مثال درس کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے پیارے نبی ﷺ اور پیارے دوستوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد برہان الحق جلالی کے کالمز
-
شان سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں
جمعرات 13 جنوری 2022
-
سیرت النبی ﷺ کے روشن پہلو
بدھ 20 اکتوبر 2021
-
آہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان
پیر 11 اکتوبر 2021
-
ماں کی دعا
منگل 5 اکتوبر 2021
-
اخلاقیات
بدھ 29 ستمبر 2021
-
حضرت داتاعلی ہجویری رحمہ اللہ کی تعلیمات
ہفتہ 25 ستمبر 2021
-
استاد ایک عظیم ہستی
پیر 20 ستمبر 2021
-
سیرت النبی ﷺ کے روشن پہلو
منگل 14 ستمبر 2021
محمد برہان الحق جلالی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.