آہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان

پیر 11 اکتوبر 2021

Mohammad Burhan Ul Haq Jalali

محمد برہان الحق جلالی

نگاہ بلند،سُخن دلنواز، جاں پُرسوز،
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے
پاکستان کے جوہری بم کا خالق اور پاکستان کا ہیرو عبدالقدیر خان ولد عبدالغفور خان ، یکم اپریل 1936 میں بھوپال اردو بولنے والے خاندان میں پیدا ہوئے والدِماجد کا تعلق درس وتدریس سے تھا، ددھیال، ننھیال کے سارے بڑے بوڑھے آل انڈیا مسلم لیگ کے فعال کارکن کی حیثیت سے مشہور و معرُوف تھے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم بھوپال میں حاصل کی بن کے رہے گا پاکستان"، "پاکستان کا مطلب کیا، لَااِلٰہ اِلّا اللہ محمد رسول اللہ" ان نعروں کی گُونج میں عبدالقدیر خان نے بچپن تا لڑکپن کا سفرطے کیا، ہونہار بروا کے موافق ہمیشہ تعلیم اور کھیل دونوں میں اوّل آیاکرتے تھے، والدہ فخر سے بتایا کرتی تھیں کہ ایک نُجومی نے ننّھے عبدالقدیرخان کو دیکھتے ہی پیشنگوئی کردی تھی کہ "یہ بچّہ جوان ہوکر بڑے بڑے ناممکن کام بخوبی انجام دے گا، ملّتِ اسلامیہ کا نام روشن کرے گا، اور عالمی عزّت و شہرت اس کے قدم چُومے گی۔

(جاری ہے)

"
مندرجہ بالا شعر ڈاکٹر عبدالقدیر خان پرسوفیصد لاگُو ہوتا ہے! ابتدائی تعلیم کے بعد پاکستان ہجرت کرکے کراچی یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی بعد ازاں یورپ کا سفر کیا عبدالقدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھا 1956ء میں جامعہٴ کراچی کا رُخ کیا اور علُومِ دھات سازی (Metallurgy) میں دوسری B.Scکی ڈگری اعلی نمبروں سے حاصل کی۔


اُنکی خداداد قابلیت کو مانتے ہوئے عالمی انجینئرنگ ادارےSiemens نے انھیں جرمنی جاکراعلٰی تعلیم کیلئے اسکالرشپ عطا کی، چناچہ 25 سالہ نوجوان عبدالقدیرخان نے ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن جاکر میٹالرجی انجینئرنگ میںM.Sc کی تعلیم شروع کی، یہاں اُنکی ملاقات ایک ہونہار، محقق، ڈچ خاتون "مس ہینی" سے ہوئی اور دونوں رشتہٴ ازدواجی میں بندھ گئے، بیگم کے مشورے سے دونوں نے ہالینڈ آکر ممتاز تحقیقی ادارے ڈیلفٹ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، یہاں عبدالقدیر خان نے طبعیات، ریاضی اور میٹالرجی میں چار سال تحقیق کے بعد M.Sc کی ڈگری حاصل کی۔


"کوہٴ نور ہیرے "کی پرکھ کرتے ہوئے بیلجئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ڈاکٹریٹPh.D کیلئے تحقیقی اسکالرشپ اور اعلٰی درجے کی مراعات عطا کیں، اس ادارے نے عبدالقدیرخان کو ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی ڈگری دی۔یورپی زندگی کی سہُولیات، کامیاب ازدواجی زندگی، اعلٰی تحقیقی اداروں سے وابستگی، انگریز سائنسدانوں کی بالواسطہ تربیت،،،، اس بھٹّی میں ہمارا پیدائیشی سائنس داں "کُندن" بن گیا۔

اس کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان لوٹ آئی عبد القدیر خان نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئری کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئری ریسرچ لیبارٹریز" کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریزرکھ دیا۔

قلیل عرصے میں ( جنرل ضیا الحق اور چودھری غلام اسحاق خاں کی سرپرستی میں ) جوہری بم تیار بھی کرلیا .اس کا ثبوت 28 اور 30 مئی 1998 کو پاکستان نے ( اور دنیا بھرنے ) جوہری بموں کے چھ دھماکوں کی شکل میں دیکھ لیا.یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے نومبر 2000ء میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔


اس عظیم سائینسداں کو پاکستان نے ہلال امتیاز سے 14 اگست 1989 کو اور پھر نشان ِ امتیاز سے 14 اگست 1996 اور 23 مارچ 1999 کو نوازا .افسوس کہ 4 فروری 2004 کوان کے ساتھ انتہائی سفاکانہ سلوک صرف اور صرف امریکہ کو مطمئن کرنے کے لیے کیا اور اس سے ایک ایسا معافی نامہ پڑھوایا جس کا مصنف وہ خود نہیں نہ صرف یہ مذموم حرکت کی گئی بلکہ اسکو کئی سال تک نظر بند رکھا گیایہ نظر بندی بالاخر6 فرروری 2009 کو ختم ہوئی اس طرح اس عظیم الشان سائنسداں کی خددمات سے پاکستان کئی سال تک محروم ہو گیا . اس کا نقصان پاکستان کو جس قدر ہوا اسکا اندازہ لگانا ممکن نہیں .
75 سال کے ایک ضعیف انسان مگر مرتے دم تک وہ پاکستان کو علم و فن سے نوازنے کی طاقت اور ہمت او ر استطاعت رکھتا ہے .
اس کی بے قدری، پاکستان کی بدقسمتی سے کم نہیں .
عبد القدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے غلطی سے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیاعبد القدیرخان وہ مایہ ناز سائنس دان ہیں جنہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا۔


مئی 1998ء کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی بالآخر آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے اس موقع پر عبد القدیر خان نے پورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔یوں آپ پوری دنیا میں مقبول عام ہوئے۔
سعودی مفتی اعظم نے عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کے لیے خام حالت میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا۔

مغربی دنیا نے پروپگینڈے کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔
پرویز مشرف دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔
انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔

ڈاکٹر قدیر خان کو 13 طلائی تمغے ملی انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔14 اگست 1996ء میں صدر پاکستان فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغا بھی ان کو عطا کیا گیا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سیچٹ (sachet) کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔


ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران میں ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔
وفات : آج 10 اکتوبر 2021 اپنے خاندان، کروڑوں مسلمانوں اور دنیا بھر میں اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ر حمہ اللہ نے اپنے جیو نیوز پر ایک انٹرویو میں ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا گلہ شکوہ کیا اور مایوسی کا اظہار کیا اسی طرح کے خیالات کا اظہار وہ کئی شخصیات سے کر چکے ہیں ۔
افسوس ہم نے اس انمول ہیرے کی قدر نہ کی۔
اللہ ان کی قبر منزلیں آسا ن کرے اور ان کی حضور ﷺکی شفاعت کبری نصیب فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :