سیرت النبی ﷺ کے روشن پہلو

بدھ 20 اکتوبر 2021

Mohammad Burhan Ul Haq Jalali

محمد برہان الحق جلالی

رب کائنات نے جب حضرت انسان کو پیدا کیا تو سب کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل کو بھیجا سب سے آخر میں آقائے نامدار حضور ﷺ کو بھیجا اور اللہ نے آپ کی زندگی ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح رکھ دی ہے اللہ تعالی نے فرمایا
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے“ (الاحزاب21)
اس فرمان میں واضح ہے کہ سید المرسلین، رحمة للعالمین،امام المرسلین، خاتم النبیین جناب محمد ﷺ کی ذات اقدس ہی ہے کہ جن کی حیات مبارکہ تمام نوع انسانی کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل اور ضابطہ حیات ہے، آپ ﷺ ہی وہ فرد کامل ہیں جن میں اللہ رب العزت عزوجل نے وہ تمام صفات جمع کردی ہیں جو انسانی زندگی کے لیے مکمل ضابطہ حیات بن سکتے ہیں، کیونکہ آپ ﷺ اپنی قوم میں اپنے رفعت کردار، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے سبب سب سے ممتاز ہیں، مزید یہ کہ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ بامروت،سب سے بڑھ کر اعلی ظرف،سب سے زیادہ عاجز ی و انکساری کے مالک،سب سے بڑھ کے پیکر خلوص و محبت، سب سے زیادہ خوش اخلاق، سب سے زیادہ معزز ہمسائے، سب سے بڑھ کر دور اندیش، سب سے بڑھ کر رحمدل،سب سے زیادہ راست گو،صاف گو، سب سے زیادہ نرم مزاج، سب سے زیادہ پاک نفیس، سب سے بڑھ کر شریف النفس،سب سے زیادہ خیر اندیش سب سے زیادہ نیک، سب سے بڑھ کر پابند عہد اور،سب سے بڑھ کر سخی، سب سے بڑھ کر متقی و پرہیزگار،سب سے بڑھ کر منصف و عادل،سب سے بڑے امانت دار یہ سب صفات رب کائنات نے آپ کے اندر جمع کیں۔

(جاری ہے)

حتی کہ آپﷺ کی قوم نے آپ ﷺ کا لقب ہی صادق و امین رکھا اور ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کی صداقت و دیانت و امانت سے متاثر ہو کر ہی آپﷺ سے عقدنکاح فرمایا۔
اللہ رب العزت نے نبی ﷺ کو بڑے اعلی اخلاق سے نوزاتھا، یہ آپ کا اعلی اخلاق ہے تھا کہ جس نے دشمن کو دوست، بیگانے کو اپنا سخت دل کو نرم خو بنادیا تھا نبیﷺ کے اسی بلند اخلاق کی تعریف اللہ رب العزت نے ان الفاظ میں فرمائی ہیکہ:
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم: 4)
(اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے)
موطا امام مالک میں نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیاہوں“
نبی کریم ﷺ کا بچپن، جوانی اور بڑھاپا آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ یعنی آپﷺ کی مکمل زندگی ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، اللہ تعالی ٰنے نبی اکرم ﷺ کو بچپن ہی سے بری محفلوں،بری صفات،بری عادات و اطواراور منا ہی و منکرات سے بچائے رکھا۔


”نبیﷺ نہ گالی دینے والے اور نہ بے ہودہ گوئی کرنے والے اور نہ ہی لعنت کرنے والے تھے اگر آپﷺ کو ہم میں سے کسی پر غصہ آتا صرف اتنا فرماتے اس کو کیا ہو گیاہے اس کی پیشانی خاک آلود ہو“
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے خدمت گزار فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس تک نبی ﷺ کی خدمت کی:”اس مدت میں آپﷺ نے مجھے اُف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تونے یہ کام کیوں کیا یہ کام کیوں نہ کیا؟(صحیح البخاری (8/ 14)
یہ آپﷺ کا اخلاق ہی تھا کہ جس نے لوگوں سے ظلمت و جہالت کو نکال کر نور صداقت اور معرفت الٰہی کو متمکن کردیا تھا
آپﷺ کی پاکیزہ سیرت کیسی تھی جب اللہ نے آپﷺ کو نبوت سے نوازا تو آپ ﷺ پہلے سے بھی زیادہ اللہ رب العزت کی عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔

صحیح البخاری میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ رات کو تہجد کی نمازمیں اس قدرقیام فرمایاکرتے کہ آپﷺ کے قدم مبارک میں ورم پڑجاتا اور آپﷺکواس بارے میں کہا جاتاتو فرمایاکرتے:
افَلاَ اکُونُ عَبْدًا شَکُورًا(صحیح البخاری (2/ 50)
”کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں“
خاتم النبیین سید المرسلین بنی کریم ﷺ کے تقوی کا عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ”اے اللہ میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانے کو ملے۔

بھوک میں تیرے سامنے گڑگڑایا کروں اور تجھ سے مانگا کروں اور کھا کر تیری حمد و ثناکیا کروں (حلیة الاولیاء جلد۸ص133)
سیدہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آپﷺ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اوراسی طرح ایک اور روایت میں اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے گھر والے ایک ایک مہینہ اس طرح گزار تے کہ گھر میں آگ نہ سلگائی جاتی اور ہمارا کھانا یہی ہوتا کھجور اور پانی (ابن ماجہ جلد سوم ص527)
نبی کریم ﷺ سب سے بڑھ کر سخی متقی و پرہیز گار تھے نبی کریم ﷺ ایک بار نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تکبیر ہو چکی تھی مگر آپ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو وہیں چھوڑا اور گھر تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے اورنماز پڑھائی کسی نے اس بے وقت گھر تشریف لے جانے کی وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایامیرے گھر میں ایک سونے کا ٹکڑا پڑا رہ گیا تھا میں نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ گھر میں پڑا رہے اور میں فوت ہوجاوں۔

(آپ نے وہ ٹکڑا غریبوں میں بانٹا اور نماز پڑھانے چلے گئے)
سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی دریا دلی اور سخاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس نے بھی کوئی چیز آپ ﷺ سے مانگی، آپ نے انکار نہ کیا بلکہ دے دی۔ (بخاری)
ایک شخص کو آپ ﷺ نے اتنی بکریاں دیں کہ جس سے دو پہاڑوں کے درمیان والی زمین بھر گئی۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس جا کر کہنے لگا میری قوم کے لوگو! مسلمان ہو جاوکیونکہ محمد ﷺ اتنا کچھ دیتے ہیں پھر محتاجی کا ڈر نہیں رہتا۔

(مسلم جلد 6 ص 31)
نبیﷺ شجاعت و بہادری میں بھی بہت بلند وبالا مقام رکھتے تھے آپﷺ سب سے بڑھ کربہادرو دلیر تھے نہایت کٹھن اور مشکل حالات میں بھی جبکہ اچھے اچھے بہادر وں دلیروں اور جانبازوں کے پاوں اکھڑ جاتے گئے مگر آپ اپنی جگہ ثابت قدم رہتے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھتے جایا کرتے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھے تو ہم رسول اللہ ﷺ کی آڑ لیا کرتے تھے آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ ہوتا تھا
(شفاء شریف علامہ قاضی عیاض1/89 بحوالہ الرحیق المختوم)
اگر ہم غزوات کی طرف نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ آ پ ﷺنے ٹکراو اور تصادم سے احتراز کیا‘ مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی آپ نے بلاتفریق سب سے صلح جوئی کا راستہ اختیار کیا‘ مخالف فریق کی شرائط کو تسلیم کیا‘ اگرچہ وہ خود آپ ﷺکے اور آپ ﷺ کے صحابہ کے خلاف تھیں‘ پھر بھی آپ نے اس حد تک جا کر بھی یہ بتا دیا کہ میں کسی قیمت میں تصادم نہیں چاہتا مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر جو شرائط لکھی گئیں وہ بظاہر مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی سے ”خیر“ پیدا فرما دی۔

آپ نے ہمیشہ امن و سلامتی کی تمنا فرمائی جہاں تک جنگوں کا سوال ہے وہ بھی مسلمانوں پر مسلط کی گئیں‘ جب کفار و مشرکین نے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ارادہ کر لیا تو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی‘ رب تعالیٰ کی طرف سے مدنی دور میں جنگ کی اجازت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اجازت دشمن کی جنگی تیاریوں اور ان کی طرف سے ہونے والے مذہبی جبر کے باعث دی گئی۔

حضور ﷺ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ”عافیت“ کا سوال کیا اور اسی بات کی تلقین فرمائی۔ فتح مکہ کے دن جب کسی نے اسے جنگ و سزا کا دن قرار دیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ رحمت کا دن ہے‘ حالانکہ فتح مکہ کے روز کفار آپ کے سامنے محکوم قوم کی حیثیت رکھتے تھے لیکن آپ نے اس دن بھی ٹکراو سے پرہیز کیا بلکہ سب کو معاف فرما دیا۔
جب حضور اکرم ﷺ کے کسی فرمان کے بغیر کوئی تحریک انجام دی گئی ہو، اور جب جب ایسا کیا گیا تو خدا عز وجل کی جانب سے فورا تنبیہ کردی گئی تھی، جیسا کہ احد اور حنین کا معاملہ تھا، خود جناب رسول ﷺ جب مدینہ منورہ سے فوج روانہ کرتے تھے یا آپ ساتھ سفر فرماتے، تو اپنے اصحاب کو تلقین کرتے تھے، جیسا کہ حضرت سلیمان بن بریدہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو کسی لشکر یا کسی سریہ کا امیر مقرر فرماتے تواسے خاص اس کے اپنے نفس کے بارے میں اللہ عزوجل کے تقوی کی اور اس کے بعدمسلمان ساتھیوں کے بارے میں خیر کی وصیت فرماتے۔

پھر فرماتے: اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو،جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیاان سے لڑائی کرو۔ غزوہ کرو،خیانت نہ کرو،بد عہدی نہ کرو، ناک، کان وغیرہ نہ کاٹو، کسی بچے کو قتل نہ کرو۔۔۔ (مسلم:۲۸۲۔۳۸)
اسی طرح آپ ﷺ آسانی برتنے کا حکم کرتے ہوئے فرماتے، آسانی کرو،سختی نہ کرو۔ لوگوں کو سکون دلاو، متنفر نہ کرو۔ اور جب رات میں آپ کسی قوم کے پاس پہونچتے تو صبح ہونے سے پہلے چھاپہ نہ مارتے، نیز آپﷺ نے کسی کو آگ میں جلانے سے نہایت سختی کے ساتھ منع کیا۔

اسی طرح باندھ کر قتل کرنے اور عورتوں کو مارنے اورانہیں قتل کرنے سے بھی منع کیا،لوٹ پاٹ سے روکا؛حتی کہ آپﷺ نے فرمایا:لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں۔ اسی طرح آپ ﷺنے کھیتی باڑی تباہ کرنے، جانور ہلاک کرنے اور درخت کاٹنے سے منع فرمایا،سوائے اس صورت میں کہ اس کی سخت ضرورت آن پڑے، اور درخت کاٹے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: کسی زخمی پر حملہ نہ کرو، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو،اور کسی قیدی کو قتل نہ کرو۔

نبی اکرم ﷺ نے یہ سنت بھی جاری فرمادی کہ سفیر کو قتل نہ کیا جائے؛ نیز آپﷺ نے معاہدین (غیر شہری) کے قتل سے بھی نہایت سختی سے روکا،یہاں تک فرمایا:جو شخص کسی معاہد کو قتل کرے گا،وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا،حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے سے پائی جاتی ہے۔
(الرحیق المختوم:۸۷۶ ومابعدہا۔ نبی رحمت:۳۳)
اقرح بن حابس نے دیکھا کہ آپ ﷺ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کر رہے ہیں تو ایک صحابی نے کہا اللہ کے نبی ﷺمیرے دس بچے ہیں میں نے کبھی ان کو پیار نہیں کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا جو رحم نہ کرے گا۔ (بچوں، یتیموں، عاجزوں اور ضعیفوں پر) اللہ بھی رحم نہ کرے گا اس پر۔
ہم نبی ﷺ کی سیرت کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رحم مادر سے (رضی اللہ عنہ) کا لقب لے کر نہیں آئے تھے۔ بلکہ انہوں نے نبیﷺ کے اسوہ اور سیرت کو اپنایا تھا۔ اور اللہ نے ان کو جنت کے سرٹیفیکیٹ دے دئے۔ دنیا میں بھی کامیاب آخرت میں بھی کامیاب۔
آج مسلمان ذلیل ہیں، خوار ہیں، بے کس ہیں، بے بس ہیں مظلوم ہیں، مجبور ہیں، تو اس کا سب سے بڑا سبب قرآن و حدیث سے بیگانگی اور اسوہ رسول سے ”چشم پوشی“ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے اور نبی ﷺ اسوہ پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :