عطائی

اتوار 10 مئی 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

عطائی کا لفظ عام طور پر ا س ڈاکٹر یا حکیم کے لئے بولا جاتا ہے جو اپنے کام کا کوالیفائڈ نہ ہو ۔ ان میں کچھ وہ لوگ ہیں جو سا ل دو سال کسی کوالیفائڈ ڈاکٹر یا حکیم کے پاس کا م کرتے ہیں اور پھر اپنا کلینک کھول لیتے ہیں ۔ دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں جو کسی ہو میومیڈیکل کالج میں داخلہ لے لیتے ہیں اور دو چار ماہ کے بعد کالج والے ان لوگوں کو پریکٹس کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن وہ ہومیو کے ساتھ ساتھ ایلوپیتھک کی دوا بھی فروخت کرتے ہیں ۔

سرکاری میڈیکل آفیسر ان پر چھاپے مارتے ہیں پکڑے جاتے ہیں ۔ کچھ لے دے کر معاملہ ٹھپ ہو جاتا ہے ۔ جس نے کلینک کھولا ،اس نے بند نہیں کیا چل رہا اور چلتا رہے گا ۔
 لفظ عطائی صرف ان ڈاکٹروں کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو عام آدمی کے حصے میں ہر شعبے میں عطائیت ہی آتی ہے مثلاً۔

(جاری ہے)


1۔ مولوی حضرات :
 جو آدمی کسی مدرسے میں داخل ہو جاتا ہے وہ تعلیم تو مدرسے میں حاصل کر تا ہے اور پارٹ ٹائم کے طور پر کسی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتا ہے وہ بچوں کو تعلیم بھی دیتا ہے ، دم ،درود بھی کرتا ہے اور لوگوں کو مسلے مسائل بھی بتاتا ہے حالانکہ اسے ابھی تک کسی مسلے کا پتہ نہیں ہوتا ۔

جمعةالمبارک میں تقریر بھی کرتاہے ۔ اگر بغور دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ اتنا نقصان عطائی ڈاکٹروں نے نہیں پہنچایا جتنا عطائی مولویوں نے دین کو پہنچایا اسی لئے تو کہا جاتا ہے نیم حکیم خطرہ جان اور نیم امام خطرہ ایمان ۔
2۔ شعبہ تعلیم :
 ہر گلی محلے میں چھوٹے چھوٹے ماڈل سکول قائم ہیں جن میں عام طور پر میٹرک یا انڈر میٹرک بچیاں ایک ہزار یا پندرہ سو روپے میں بھرتی کر لی جاتیں ہیں ان کو نہ تو نالج ہوتا ہے اور نہ ہی پڑھانے کا تجربہ اس طرح وہ بچوں کے بنیادی تین چار سال ضائع کر دیتے ہیں جبکہ سرکاری سکولوں میں کسی استاد کی تعلیم بی ایڈ سے کم نہیں ہو تی ۔

کیونکہ سرکاری سکولوں میں رش ہو تا ہے اس لئے لوگ مجبوراً اپنے بچوں کو عطائی سکولوں میں داخل کرواتے ہیں اور اپنے بچوں اور قوم کا نقصان کرتے ہیں ۔
3 ۔ شعبہ سیاست :
سیاست میں تو عطائیت اتنی بڑی ہے جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے کیونکہ پاکستا ن میں سیاست کر نے کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے نہ ہی شعور کی اور نہ عقل کی سیاستدان کا صرف، مخدوم ،گیلانی، جیلانی ،خان ، چوہدری اور سردار ہونا ہی کافی ہے ۔

سیاست دان شرابی، کبابی، زانی، چور، لوٹیرا، رسہ گیر، اور ٹھگ سب کچھ ہو سکتاہے لیکن غریب نہیں ہو سکتا کسی بڑے آدمی کا بیٹا ان پڑھ جاہل ہو کر بھی پاکستان کاوزیر اور وزیر اعظم بھی ہو سکتا ہے۔ ملک میں اسمبلی ارکان کی تعداد ( پانچوں صوبائی اسمبلیاں ۔قومی اسمبلی اور سنیٹ کے ارکان شامل ) تقریباً بارہ سو(۱۲۰۰ ) ہو گی ان میں سے صرف بیس ، پچیس ارکان ہی ایسے ہونگے جو پڑھے لکھے اور اپنے عہدے کے لئے کوالیفائڈ ہونگے اور وہی ارکان ملکی حالات اور اسمبلی کی بحث میں حصہ لیتے نظر آتے ہیں باقی سب ارکان گنتی پوری کر تے ہیں ۔

ملک کا وزیرتعلیم کسی زمانے میں ایسا بھی رہا ہے جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتاتھا اور صرف مہر لگاتا تھا لہٰذ ا ان سب امور پر غور کرنا ضروری ہے اور غور کرنے کے لیے اسمبلی ارکان نہیں بلکہ پرفیسر /پی ایچ ڈی قسم کے ارکان جسے دوسرے ممالک میں تھنک ٹنک کہتے ہیں ہو نے چاہیے جو غور و فکر کر سکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :