کشمیراور پاک وہند

بدھ 24 فروری 2021

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

کشمیر کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاک وہند کی اپنی عمر ہے ۔انگریز بہادرجب دوسری عالمی جنگ ہار چکا اور وہ اس قابل نہ رہا کہ وہ اپنے مفتوح علاقے پر اپنا کنٹرول قائم رکھ سکے اس نے سب علاقے آزاد کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کی روح سے اس نے اپنے کنٹرول علاقے آزاد کر دیے جس میں پاک وہند کے علاوہ چین انڈونیشیا لیبیا عرب علاقے اسٹریلیا کنیڈااور بھی بہت سے علاقے شامل تھے۔

ان ملکوں کو آزاد کرتے وقت اس نے یہ خیال رکھا کہ میرے یہاں سے جانے کے بعد یہ ملک مجھے پریشان نہ کریں بلکہ مجھے سلام کرتے رہیں جیسے چین کو دو حصوں میں تقسیم کر گیا عرب علاقے آٹھ نوں ملکوں میں تقسیم کیے گئے پاک وہند کو دو ملکوں میں ایسے تقسیم کی کہ پاکستان کا ایک حصہ دوسرے سے ایک ہزار میل( سولہ سو کیلومیٹر ) کے فاصلے پر رکھا گیا اور پھر کشمیر کو غیر منقسم چھوڑ دیا گیاتاکہ یہ لوگ امن سے نہ رہ سکیں جیسے دو کتوں کے درمیان ایک ہڈی ۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ طے یہ ہوا تھا کہ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان کا حصہ ہونگے ۔اس میں بھی ڈنڈی ماری گئی مسلم اکثریت والے تین اضلاع ہوشیار پور فیروز پور اور جالندھر جن سے پاکستان کے راستے کشمیر کو جاتے تھے اور کشمیر سے منسلک تھے انڈیا کو دے دیے گئے ان تین اضلاع کے انڈیا کے ساتھ جانے سے کشمیر ایسے ہو گیا جیسے انڈیا نے بغل میں لے لیا ہواس کے علاوہ تین دریا راوی بیاس اور ستلج نکلتے تو کشمیر سے ہیں مگر ان تین ضلاع سے ہو کر انڈیا والے پنجاب سے ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں یہ تین اضلاع اور تین دریاؤں کے انڈیا کے ساتھ ملنے سے پاکستان کے لئے پانی کا مسلہ بھی پیدا ہو گیا جسے ۱۹۶۰ میں پاکستان کے جنرل اور صدر ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے سے کچھ حل کیا ۔


تقسیم پاک وہند کے فوراً بعد ۱۹۴۸ میں ہندوستان نے کشمیر پر فوج کشی کر دی اس وقت پاک آرمی کے کمانڈر انچیف ایک انگریز جنرل ڈگلس گریسی تھے قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل تھے اس نے آرمی چیف کو دفاع کرنے کا حکم دیا کمانڈر انچیف نے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ۔ اس وقت قبائلی علاقے کے لوگوں نے ہندوستان کی فوج کا مقابلہ کیا اور اسے نہ صرف روکا بلکہ پیشے ہٹنے پر مجبور کر دیا ۔

جب ہندوستان نے ساراکشمیر اپنے ہاتھ سے جاتے دیکھا تو یو این او میں حق خود ارادیت کی ْ قررا داد پیش کر دی جسے ہندوستان کے حامیوں ملکوں نے فوراً منظور کر لیا۔ اس بعد ہندوستان اپنی ہی پیش کردہ قرار داد پرعمل درامد سے مکر گیا وہ قرار داد اب بھی یو این او کے اجنڈھے پر موجود ہے لیکن دینا کے سب چوہدری ملک مل کربھی اس قرارداد پر عمل درآمد سے کتراتے ہیں کیونکہ اس سے مسلمانوں کو فائدہ ہو جائے گا جب مسلہ حل ہو گیا ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے ہمسائے ہو جائیں گے ان کی دشمنیاں ختم ہو جائیں گیں ان کو فوج محدود مقدارمیں رکھنے کی ضرورت ہو گی ان کی ضرورت کے لئے غیر مسلموں نے جو سامان جنگ کے لئے اسلہ فکٹریاں لگا رکھیں ہیں وہ بند ہو جائیں گیں وہ ممالک منافع کی بجائے خسارے میں چلے جائیں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :