ہمارے سرکاری ادارے ۔ حصہ دوئم

منگل 7 ستمبر 2021

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

ہم ایک ہزار نوسو ستر میں گاؤں سے شہر میں آئے اور پاور لوم لگالیں اس وقت چار پاور لوم کے لئے میونسپل کمیٹی کی طرف سے بیس روپے کا ایک سال کے لئے لائسنس جاری ہوتا تھا ۔ میونسپل کمیٹی کی طرف سے ایک آدمی آیا اس نے اپنا عہدہ لائسنس انسپکٹر بتایااور لائسنس چیک کروانے کا کہا کیونکہ ہمارے پا س لا ئسنس نہیں تھا اس نے کہا کہ بیس روپے دے دیں میں تم کو لائسنس بنا کر دے دوں گا ہم نے بیس روپے دے دیے سال گزر گیاوالد صاحب نے مجھے کہا کہ کمیٹی گھر جاؤ اور لائسنس بناکر لے آؤ میں کمیٹی گھر پہنچا اورچار گھنٹے کی تگوداؤ کے بعد بیس روپے بنک میں جمع کروانے میں کامیاب ہوگیا دل کو تسلی دی کہ رشوت نہیں د ی سر کاری خزانہ میں رقم جمع ہو گئے ۔

چند دنوں کے بعد پہلے والا لائسنس انسپکٹر آگیا اس نے پھر لائسنس کا مطالبہ کی ہم نے بینک کی رسید اسے دکھا ئی اس نے کہا یہ تو بنک کی رسید ہے کوئی پتہ نہیں کس لئے رقم جمع کروائی گئی ہے اس لئے مجھے بیس روپے دیں تاکہ میں لائسنس بناکر دوں اس کے بعد ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہر سال انسپکٹر کو پیسے دے دیتے مگر لائسنس کبھی نہیں ملا ۔

(جاری ہے)


 ایک ہزار نوسو چراسی میں میں سرکاری طور پر سعودیہ چلا گیا دوسال بعد واپس آیا وہاں سے میں نے ایک فریج اور ٹی وی لے کر کارگو کے ذریعے پاکستان بھیج دیے وہاں ہم سب کو فری الاؤنس کے لئے ایک فارم اے ملا جس پر فریج اے سی واشینگ مشین اور کچھ دیگرسامان درج تھا ۔

میں سامان لینے کے لئے لاہور کسٹم ہاؤس صبح دس بجے پہنچا (مجھے پہلے بتایا گیا تھا کہ کسٹم ہاؤس میں ہزار ،بارہ سو روپے میں مال وہاں کے کسٹم کلیرنس ایجنٹ چھڑوادیتے ہیں لیکن میرے دل میں تھا کہ رشوت نہیں دینی زیادہ پیسے لگتے ہیں کوئی بات نہیں )میرے پاس آدمی آیا اس نے بتایا کہ میں یہاں کسٹم کلیرنس ایجنٹ ہوں یہ فارم پر کروادیں میں ٓپ کو چار ہزار روپے میں سامان لادونگا جبکہ ٹی وی کا کسٹم چار ہزار پانچ صد روپے بنتے تھے ۔

میں نے اس سے پوچھا کہ اس میں سے سرکاری خزانے کیا جائے گا اس نے کہا وہ ہمار اکام ہے میں نے انکار کر دیامیں شام چار بجے تک بنک میں چار ہزار پانچ سوکی رقم جمع کروانے میں کامیاب تو ہو گیا مگر اس ساری کوشش میں میرے پاس سے فارم اے کہیں گم ہوگیاجب سامان لینے گیا کسٹم والوں نے فرج میں رکھا ہوں دوپٹوں کا ایک تھان یہ کہ کر لے لیا کہ پورا تھا ن جو تقریباً بائیس گز کا تھا نہیں لایا جا سکتا ۔


 دو ہزار پانچ کی بات ہے میرے گھر کے سامنے بچی کی شادی ہو رہی تھی میں بھی اس میں مدعو تھا جب نکاح کی بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ہماری کالونی میں نکاح رجسٹرار موجود ہی نہیں اہل محلہ سب بیٹھے تھے سب نے مجھے کہا کہ کالونی کے لئے یہ کا م آپ کر سکتے ہیں میں نے حامی بھر لی کیونکہ میں فوج سے ریٹائرڈ ہو چکا تھا ۔میں یونین کونسل کے دفتر گیا سکریٹری سے ملا اس وقت ناظم کا نظام تھا ۔

ناظم سے ملا اورنکاح رجسٹرار کا لائسنس مل گیا سکریٹری صاحب نے ایس او پی بتائی کہ لائسنس فیس ایک ہزار روپے رجسٹر اپنا لیناہو گا ہر پرت جمع کروانے پر دو سو روپے دینا ہوں گے ۔ یہ سلسلہ دو ہزار سولہ تک چلا ۔ دوہزار سترہ میں یونین کونسل بدل گئی اس یونین کونسل میں چیر مین صاحب نے اپنے طور پر ایک کمپیوٹر اپریٹر بھر تی کی ہوئی تھی اس کی تنخواہ نہیں تھی ہر نکاح رجسٹرار سے ہر پرت پر دو سو روپے لیے جاتے تھے اورہر کمپیوٹر کروانے پر بھی دو سوروپے لیے جاتے تھے جبکہ ہر کمپیوٹر کروانے کی فیس ایک سو روپے ہے جو نادرہ کو جاتی ہے دو ہزار اٹھا رہ میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی اس نے چیرمین ختم کر دیے ہمارے سکرٹیری صاحب نے کمپیو ٹر اپریٹر بھی فارغ کر دی پرت فیس ختم کر دی اور ہر کمپیوٹر کروانے پر سرکاری فیس ایک سو روپے کر دی یہ سکریٹری صاحب کا نام محمد ظفر صاحب میں یہاں ضرور لکھوں گا کیونکہ ان کی پبلک ڈیلینگ مثالی تھی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ عوام کا کام ایک ہی چکر میں ہو جا نا چاہیے وہ بھی سرکاری فیس میں۔


 اگست ۲۰۲۱ کی بات ہے میرے ایک عزیز کو نکاح نامہ کمپیوٹرایز کروانا تھا اس کے لئے انہوں نے نکاح نامہ کی نکل مجھے ارسال کر دی اور ساتھ ہی شناختی کارڈ کی نکل بھی وہ میں نے ضلعی دفتر میں جمع کروادی اگلے دن میرت عزیز نے فون کیا کہ نکاح نامہ میں عمر میں کچھ فرق ہے وہ درست کروا دیں میں نے ان سے کہا کہ اس کے لئے طریقہ کا یہ ہے کہ کسی بھی تبدیلی کی اجازت عدالت دیتی ہے لہٰذا اس کے لئے کیس دائر کر نا پڑے گا میرے عزیز نے ضلعی کمیٹی گھر کا رابطہ نمبر مانگا دہ میں نے دی دیا دفتر والوں نے ان سے چار ہزار روپے کے بدلے میں وہ سب تبدیلیاں کر دیں جو دہ چاہتے تھے ۔


 میرے عزیز نے چند دن بعد دوبارہ رابطہ کی کہ مجھے پیدائشی پرچی کمپیوٹرایزڈ چاہیے میں نے ضلعی دفتر برائے پیداش و فوتگی سے رابطہ کیا پہلے تو انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ ہم سے ایسا ہونا ممکن ہی نہیں چند منٹ کے بعد اسی دفتر کا ایک آدمی اس کام کے لئے خودہی آمادہ ہو گیا کہ ٓپ کا کام ہو جائے گا مگر کچھ خرچہ زیادہ ہو گا پوچھنے پر بتایا کہ ایک پرچی دس ہزار روپے میں ہم بنا دیں گے ۔

ان کا نکاح ۱۹۷۹ میں اور پیدائش ۱۹۶۰ کی ہے جبکہ اس وقت کوئی یونین کونسل نہ تھی ۔
 بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں ہر کام ممکن ہے بیشک اس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو ۔
 یکم مئی دو ہزار بیس میں یونین کونسل کا نظام ختم کر دیا گیا اور میٹروپولیٹن کاپوریشن بحال کر دی گئیں فیلڈ آفس بنا دیے گئے ۔ ہماری یونین کونسل کو فیلڈ آفس ۳۶ ملا پچھلے دنوں ایک پرت جمع کروانے فیلڈ آفس گیا وہاں موجودانچارج نے مجھ سے نکاح رجسٹرار کا لائسنس مانگا میں نے دیا اس نے دیکھ کر کہا کہ یہ ختم ہو چکا ہے اسے رنیو کرواناہو گا میں نے ان سے کہا کہ کر دیں انہوں نے کہا کہ اس کی فیس پانچ صد روپے جمع کر وادیں کیونکہ ہم نے بنک میں جمع کروانی ہوتی ہے میں نے پانچ صد روپے ادا کر دیے پرت کمپیوٹر کروایا جس کے سکیرٹری صاحب نے پانچ صد روپے لئے وہ میں نے دے دیے تقریباً ماہ کے بعد میں دوبارہ فیلڈ آفس گیا ان سے نکاح کا لائسنس مانگا جو انہوں نے مجھے دے دیا میں نے ان سے پانچ صد کی رسید مانگی تو فیلڈ آفس کا ماحول ہی تبدیل ہوگیا پورا عملہ میرے ارد گرد جمع ہو گیا اور مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی گئی میں نے بھی ترقی بہ ترقی جواب جو بن سکے دیے آخر میں انچارج صاحب نے ہلکی پھلکی معذرت کے بعد پانچ صد روپے واپس کر دیے ۔

ہر فیلڈ آفس کا علاقہ تقریباً دس کلو میٹر ہے لوگوں کوکافی دور سے فیلڈ آفس جانا پڑتا ہے اس لئے وہاں کے سٹاف کو ہدایت فرمادیں کہ ہر آنے والے کے کم سے کم چکر لگیں ۔ پہلے ایک تجویز تھی کہ ہر یونین کونسل کے دور کے علاقے میں جو پڑھ لکھے نکاح رجسٹرار ہیں ان کو بچوں کے اندراج کا رجسٹر دے دیا جائے اور دہ رجسٹر ہفتہ یا ماہ کے بعد سکریٹری صاحب کو دکھا دیا کریں تاکہ عوام کو کم سے کم پریشانی کا سامنا کر نا پڑے۔
 عرض کرتا چلوں کہ سیدھے راستے پر چلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن کے قریب تر ہے ۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں انسان سےدنیا میں آ نے اور جانے پر رشوت لی جاتی ہے ۔ صاحب اقتدار سے گزارش ہے کہ ان اداروں کو درست سمت دی جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :