اقبال کا شاہین

منگل 9 نومبر 2021

Mohammad Noman Sattar

محمد نعمان ستار

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ ہمارے قومی شاعر ہیں،مفکر پاکستان بلکہ ایک عظیم لیڈر بھی ہیں کہ جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے  بھٹکی ہوئی مسلمان قوم کو راہ راست پر کیا اور اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں کو ایک روشن مستقبل سے روشناس کروایا اس طرح ان کا کلام ہمارے دلوں میں سما گیا حتیٰ کے ان کا ان کا کلام ہماری زندگی کا سرمایہ بن گیا
اک ابر نو بہارِ فضاؤں پہ چھا گیا
اقبال اس چمن کے رگوں میں سما گیا
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کا مقصد،محور و تخیل اسلام تھا اسی وجہ سے انہوں نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اسلام کا پیغام دیا کیونکہ اسلام کے جس مقام و مرتبے کو اقبال سمجھتے تھے وہاں تک عام انسان کی  عقل و دانش نہیں پہنچ سکتی اور اقبال کی شاعری کو سمجھنے کےلئے اسلام کی تاریخ سے آشنا ہونا ضروری ہے اگر کوئی اسلام کی تاریخ سے نابلد ہے تو وہ اقبال کی شاعری کو نہیں پہچان سکتا
اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے نوجوانوں بلکہ مسلمانوں کے لیے لفظ شاہین بطور خطاب پیش کیا کیونکہ شاہین کی نگاہ تیز،پرواز بلند اور رفتار سریع ہوتی ہے، وہ مسلمانوں کو اور بالخصوص نوجوانوں کو بلند نگاہ،بلند پرواز اور بلند رفتار دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ شاہین خوددار ہے وہ آب و دانہ کےلیے بلندیوں سے نشیب کی طرف نہیں آتا،شاہین ایسی پرواز کو موت تصور کرتا ہے کہ جس رزق کو حاصل کرنے کے لیے اسے بلندی سے پستی کی طرف جانا پڑے،شاہین کی اس خصلت و عادت کو علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے کلام میں یوں سمایا کہ
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہلکے نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں اڑتے بادلوں اور پرندوں نے ہمیشہ انسان کی سوچ کو مسحور رکھا اور انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی ان پرندوں اور بادلوں کی طرح آسمان کی وسعتوں میں سما جائے اور پھر انسان نے ایسی ایجادات کیں کہ وہ آسمان کی وسعتوں میں سما گیا   اقبال اپنی قوم کے ہر نوجوان کو اس خواب کی تعبیر دیتے تھے کہ وہ محنت و ترقی کرکے وہ مقام حاصل کرسکتا جو کہ ایک شاہین کو حاصل ہے
کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اس قوم کا ہر نوجوان اس آسمان کی وسعتوں کو مسخر کرلے
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
شاہین خلوت پسند ہوتا ہے، وہ گلش سے دور بیابان میں رہنا زیادہ پسند کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خلوت میں رہنے سے اس کی خودی مجروع نہیں ہوگی اس لیے انہوں نے اپنے نوجوانو،اپنے شاہینوں کو بھی درس خودی دیا اور شاہین کی زباں میں بیان کیا
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ
خیابانیوں سے پرہیز ہے لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربت غازیانہ
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی شاعری میں تصور شاہین پیش کرکے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کہ ہر خطے،ہر کونے میں بسنے والے مجبور،بے بس، اور غلام افراد کو ایک نیا خیال پیش کیا، یہ اقبال ہی تھے کہ جنہوں نے شاہین کو بہادر، خوددار، بلند آواز اور بلند عزمی کی علامت بنا کر مسلمانوں کو ہندوؤں اور انگریزوں سے اپنا حق لینے کیلئے بیدار کیا،بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ اقبال کا تصور شاہین ہی تھا کہ پاکستان وجود میں آیا اور ہم ایک آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں اقبال کا تصور شاہین ہمارے لیے رہنمائی کا کام کرتا ہے کیونکہ
چیتے کا جگر چاہیے شاہین کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش افرنگ
اقبال کا شاہین مرد مومن کی علامت ہے وہ اس دنیا میں عیش وعشرت اور لذت طلبی کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ تو اپنی سوچ و فکر اور اپنے عمل سے یہ بتانے آیا ہے کہ وہ زمین کا ایک چھوٹا سا ذرہ بھی محنت اور کوشش سے اس کائناتِ کو تسخیر کرسکتا ہے ایسے شاہینو کےلئے اقبال فرماتے ہیں کہ
اوللزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر چیرتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کا نوجوان اقبال کا شاہین کہلانے کے لائق ہے؟ نہیں ہر گز نہیں کیونکہ اقبال جیسے عظیم شاعر کا شاہین بلندیوں اور رفعتوں کےلئے سر کردہ ہے لیکن آج کا نوجوان اسے اپنی طاقت گفتار پہ ناز تو ہے لیکن بات کرنے کی تمیز نہیں یہ ان نوجوانوں کو شاہین قرار دیتے ہیں کہ جنہوں نے خود اپنی تہذیب کو لات ماری اور مغربی تہذیب کو اپنایا، یہ کیا جانے کہ اقبال کے شاہینوں کی پرواز تو آسمان کی وسعتوں تک ہوتی ہے آذان کی بجائے یہ نوجوان انٹرنیٹ کالبوں کا رخ کرتے ہیں ان کا زندگی کا نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ ہی کوئی کام کرنے کی چاہ، بقول ان نوجوانوں کے!
"فکر نہ فاقہ،عیش کر کاکا"
ان کی زندگی میں ہر طرف اندھیرا ہے ہر طرف دشت و غبار ہے، یہ جاند اور مریخ کو کیا تسخیر کرنے کی بات کیا کریں گے یہ تو بغیر راکٹ کے ہی جہاز بنے پھرتے ہیں یہ نوجوان اقبال کی شاعری کو کیا سمجھیں گے کیونکہ یہ تو پوری طرح سے مغربی تہذیب و تمدن میں گم ہیں اقبال نے انہی نوجوانوں کے لیے فرمایا تھا
جسے آتا نہیں دنیا میں کوئی فن وہ تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں آلودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھائیں جو اسلاف کے مدفن وہ تم ہو
اگر تاریخ کے اوراق کو دکھا جائے کہ جب تک مسلمان اپنے اسلاف کے بتائے ہوئے رستے پہ چلتے رہے وہ دنیا میں کامیاب رہے اور جیسے ہی انہوں اپنی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کہ مغربی تہذیب کو اپنایا وہ دنیا میں رسوا و خوار ہوئے اور تنزلی ان کا مقدر ٹھہری، آج کے اس پرفتن دور میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اقبال کی فکر کو سمجھیں اور جسے شاہین اقبال اپنے نوجوانوں کو دیکھنا چاہتے تھے اس کی حقیقی تصویر بن کا دنیا کے سامنے پھر سے ابھریں اس کےلئے ضروری ہے ہم فکر اقبال کو پڑھیں،اسلام کی تاریخ پڑھیں اور محنت و لگن کو اپنا شعار بنا لیں تو یقیناً کامیابی ہم سے دور نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :