بیٹی رحمت ہے،زحمت نہیں
ہفتہ 29 مئی 2021
صنف نازک اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے،وہ ماں،بہن،بیٹی کسی بھی روپ میں ہوسکتی ہے آپ ﷺ نے عورت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا
"کہ اگر عورت بیوی ہے تو دنیا کی سب سے بڑی دولت،بہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار"
صنف نازک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہر روپ میں ابر رحمت ہے ۔ پیا ر ، محبت کا بے لوث خزانہ ہے ، خوشبو کا جھونکا ہے ، نرم نازک کلی کی مانند ہے ، ایثار و قربانی کا نمونہ ہے ۔ جس گھر میں بیٹی پیدا ہو تی ہے اس گھر کے مکیں پر رحمت کے دروازے کھو ل دیئے جاتے ہیں ۔ وہی بیٹی جب ماں بنتی ہے تو پر وردگار عالم اس ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دیتا ہے ۔ اور جس جوڑے کی پہلی اولاد بیٹی ہو اس کی باقی اولاد کےلئے دو مائیں میسر ہوتی ہیں
زمانہ جہالیت میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا لیکن اسلام نے آکر عورت کا مرتبہ عرش سے بھی بلند کردیا لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پھر اسی طرف جارہے ہیں تب بھی غیرت کے نام پہ قتل کردیا جاتا تھا اب بھی غیرت کے نام پہ قتل کردیا جاتا بس فرق صرف اتنا ہیں کہ تب پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا اور اب جوان کرکے مارا جاتاہے،تب بھی مفلسی کے ڈر سے مارا جاتا تھا آج بھی غربت اور مہنگائی کی وجہ سے قتل کردیا جاتا ہے،"اللّٰہ تبارک و تعا لیٰ کا ارشاد ہے ! ولا تقتلو اولادکم من خشیت املاق ، نحن نر زقھم و ایا کم ان قتلھم کان خطاء کبیرا ( الا سرا ء :۳۱) ”اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشہ سے قتل نہ کرو ۔
ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ بے شک ان کا قتل بہت بڑا گناہ ہے ”۔
آگے اللّٰہ تبارک و تعا لیٰ کا ارشاد ہے :و اذا لموئودت سئلت ، بای ذنب قتلت ( التکویر :۸۔۹) ”اور جب زندہ درگور کی ہو ئی لڑکی سے پو چھا جا ئے گا کہ وہ کس قصور میں مار دی گئی ؟ ”
اس منکر کا داعیہ خواہ اختصادی ہو یا مفلسی کا ڈر اور رزق کی تنگی یا غیر اقتصادی ہو مثل لڑکی پیدائش کو اپنے لئے با عث عار سمجھنا وغیرہ ۔ اس وحشیانہ فعل کو ہر صورت اسلام میں شدید حرام ٹھہرایا ہےکیوں کے یہ فعل قتل ، قطع رحمی اور کمزور نفسی پر ظلم جیسے منکرا ت پر مشتمل ہے ۔ بیٹیاں تو رحمت ہو تی ہیں ، باپ کا درد سمیٹتی ہیں ، ماں کے آنسو پوچھتی ہیں ، بھائی کے دکھ لیکر ان پر اپنے سکھ لٹا دیتی ہیں اور بدلے میں وہ ہی بھائی کبھی جائیداد میں حصہ مانگنے پر تو کبھی پسند کی شادی کو غیرت کا مسئلہ بنا کر قتل کر دیتاہے
ہمارے معاشرے میں بچیوں کو پڑھانا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے،خیبرپختونحواہ ،سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں آج بھی 40 سے 50 فیصد لڑکیوں کو بنیادی تعلیم سے آج بھی محروم رکھا جاتا ہے یا انہیں بنیادی سکول کی تعلیم کے بعد انہیں آگے پڑھنے نہیں دیا جاتا اور بلوغت کی عمر شروع ہوتے ہی ان کی شادی کردی جاتی ہے آج بھی پاکستان میں لڑکیوں کی شادی کی اوسط عمر 16 سال سے 18 سال ہے ایک ترقی یافتہ معاشرہ بنانے میں ماں کا کلیدی کردار ہوتا ہے ایک پڑھی لکھی ماں پورے خاندان کو سنوار دیتی ہے وہ محدود وسائل میں بھی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرتی ہے اس کے برعکس جس معاشرے میں بچیوں کی 12 سے 14 سال کی عمر میں شادی کردی جائے جو کہ خود ایک بچی ہے وہ کس طرح اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرسکے گی جب بچی کو کھیلنے کودنے کی عمر میں ہی شادی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا تو ترقی یافتہ معاشرہ کس طرح پروان چڑھے گا،بیٹیاں تو گلاب کی کلیوں کی طرح نازک ہوتی ہیں زرا سا جھٹکا لگنے سے بکھر جاتی ہیں اور جب ان کے بچپن میں ہی ان کی خوشیوں کا گلہ گھونٹ دیا جائے گا اگر میں کہوں کہ ان کی خواہشات کا قتل کردیا جائے تو بےجا نہ ہوگا،بچوں کی اچھی تربیت کرنا ماں باپ کا فرض ہے آئین پاکستان کہ تحت 16سال سے کم عمر بچی کی شادی کرنا جرم ہے لیکن آج بھی اس ملک میں وٹہ سٹہ،اور قصاص کے نام پر 16 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے نہ ہی انہیں تعلیم جیسے زیوار سے آراستہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی اچھی تعلیم و تربیت بلکہ انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ سسرال میں جاکر ہماری ناک نہ کٹوانا،اور پھر سسرال میں اس پر کہی طرح کے ظلم و ستم ڈھاتے جاتے ہیں لیکن وہ اپنی درد زندگی کسی کو بتا نہیں سکتی اس کے علاؤہ آج بھی بچیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے سو ایسے گلاب جیسے چہرے بچپن میں ہی مرجھا جاتے ہیں۔
حدیث نبوی ہے ! ”حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو ہی بیٹوں یا بہنوں بھار اٹھا یا اور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس بندے کیلئے جنت کا فیصلہ ہے ۔ ( ابو داؤد و ترمذی )
بیٹیاں تو گھر کی رونق ہوتی ہیں اور جس گھر میں بیٹی نہ ہو وہ گھر کھنڈر نما لگتا ہے
بقو ل شاعر !
”اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چا ہتا ہے بیٹے عطا فر ماتا ہے یا ان کو جمع کر دیتا ہے کہ بیٹے بھی دیتا ہے اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتا ہے بے شک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے ۔ (سورت شوری : ۴۹۔۵۰)
خدارا بیٹی کو بوجھ نہ سمجھا جائے ہمارے میں بھی کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی بیٹی کو نحوست کی علامت سمجھتے ہیں اور ان کی کم عمری میں ہی شادی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت ساری معاشرتی اور جسمانی بیماریوں میں گھر جاتی ہیں ان کی زندگی عام لڑکیوں جیسی نہیں رہتی وہ معاشرے کے ہرفرد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کیونکہ بچپن میں ہی ان پر اتنے ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں کہ وہ اس معاشرے سے نالاں نظر آتی ہیں
اپنے دلوں میں بیٹیوں کی محبت پیدا کریں وہ زحمت نہیں بلکہ اللّٰہ کی رحمت ہوتی ہیں ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی چار بیٹیاں تھیں اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے محبت کرکے کے عملی طور پہ بتایا کہ بیٹیاں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں زحمت نہیں اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی بیٹیوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
"کہ اگر عورت بیوی ہے تو دنیا کی سب سے بڑی دولت،بہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار"
صنف نازک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہر روپ میں ابر رحمت ہے ۔ پیا ر ، محبت کا بے لوث خزانہ ہے ، خوشبو کا جھونکا ہے ، نرم نازک کلی کی مانند ہے ، ایثار و قربانی کا نمونہ ہے ۔ جس گھر میں بیٹی پیدا ہو تی ہے اس گھر کے مکیں پر رحمت کے دروازے کھو ل دیئے جاتے ہیں ۔ وہی بیٹی جب ماں بنتی ہے تو پر وردگار عالم اس ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دیتا ہے ۔ اور جس جوڑے کی پہلی اولاد بیٹی ہو اس کی باقی اولاد کےلئے دو مائیں میسر ہوتی ہیں
زمانہ جہالیت میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا لیکن اسلام نے آکر عورت کا مرتبہ عرش سے بھی بلند کردیا لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پھر اسی طرف جارہے ہیں تب بھی غیرت کے نام پہ قتل کردیا جاتا تھا اب بھی غیرت کے نام پہ قتل کردیا جاتا بس فرق صرف اتنا ہیں کہ تب پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا اور اب جوان کرکے مارا جاتاہے،تب بھی مفلسی کے ڈر سے مارا جاتا تھا آج بھی غربت اور مہنگائی کی وجہ سے قتل کردیا جاتا ہے،"اللّٰہ تبارک و تعا لیٰ کا ارشاد ہے ! ولا تقتلو اولادکم من خشیت املاق ، نحن نر زقھم و ایا کم ان قتلھم کان خطاء کبیرا ( الا سرا ء :۳۱) ”اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشہ سے قتل نہ کرو ۔
(جاری ہے)
آگے اللّٰہ تبارک و تعا لیٰ کا ارشاد ہے :و اذا لموئودت سئلت ، بای ذنب قتلت ( التکویر :۸۔۹) ”اور جب زندہ درگور کی ہو ئی لڑکی سے پو چھا جا ئے گا کہ وہ کس قصور میں مار دی گئی ؟ ”
اس منکر کا داعیہ خواہ اختصادی ہو یا مفلسی کا ڈر اور رزق کی تنگی یا غیر اقتصادی ہو مثل لڑکی پیدائش کو اپنے لئے با عث عار سمجھنا وغیرہ ۔ اس وحشیانہ فعل کو ہر صورت اسلام میں شدید حرام ٹھہرایا ہےکیوں کے یہ فعل قتل ، قطع رحمی اور کمزور نفسی پر ظلم جیسے منکرا ت پر مشتمل ہے ۔ بیٹیاں تو رحمت ہو تی ہیں ، باپ کا درد سمیٹتی ہیں ، ماں کے آنسو پوچھتی ہیں ، بھائی کے دکھ لیکر ان پر اپنے سکھ لٹا دیتی ہیں اور بدلے میں وہ ہی بھائی کبھی جائیداد میں حصہ مانگنے پر تو کبھی پسند کی شادی کو غیرت کا مسئلہ بنا کر قتل کر دیتاہے
ہمارے معاشرے میں بچیوں کو پڑھانا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے،خیبرپختونحواہ ،سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں آج بھی 40 سے 50 فیصد لڑکیوں کو بنیادی تعلیم سے آج بھی محروم رکھا جاتا ہے یا انہیں بنیادی سکول کی تعلیم کے بعد انہیں آگے پڑھنے نہیں دیا جاتا اور بلوغت کی عمر شروع ہوتے ہی ان کی شادی کردی جاتی ہے آج بھی پاکستان میں لڑکیوں کی شادی کی اوسط عمر 16 سال سے 18 سال ہے ایک ترقی یافتہ معاشرہ بنانے میں ماں کا کلیدی کردار ہوتا ہے ایک پڑھی لکھی ماں پورے خاندان کو سنوار دیتی ہے وہ محدود وسائل میں بھی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرتی ہے اس کے برعکس جس معاشرے میں بچیوں کی 12 سے 14 سال کی عمر میں شادی کردی جائے جو کہ خود ایک بچی ہے وہ کس طرح اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرسکے گی جب بچی کو کھیلنے کودنے کی عمر میں ہی شادی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا تو ترقی یافتہ معاشرہ کس طرح پروان چڑھے گا،بیٹیاں تو گلاب کی کلیوں کی طرح نازک ہوتی ہیں زرا سا جھٹکا لگنے سے بکھر جاتی ہیں اور جب ان کے بچپن میں ہی ان کی خوشیوں کا گلہ گھونٹ دیا جائے گا اگر میں کہوں کہ ان کی خواہشات کا قتل کردیا جائے تو بےجا نہ ہوگا،بچوں کی اچھی تربیت کرنا ماں باپ کا فرض ہے آئین پاکستان کہ تحت 16سال سے کم عمر بچی کی شادی کرنا جرم ہے لیکن آج بھی اس ملک میں وٹہ سٹہ،اور قصاص کے نام پر 16 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے نہ ہی انہیں تعلیم جیسے زیوار سے آراستہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی اچھی تعلیم و تربیت بلکہ انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ سسرال میں جاکر ہماری ناک نہ کٹوانا،اور پھر سسرال میں اس پر کہی طرح کے ظلم و ستم ڈھاتے جاتے ہیں لیکن وہ اپنی درد زندگی کسی کو بتا نہیں سکتی اس کے علاؤہ آج بھی بچیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے سو ایسے گلاب جیسے چہرے بچپن میں ہی مرجھا جاتے ہیں۔
حدیث نبوی ہے ! ”حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو ہی بیٹوں یا بہنوں بھار اٹھا یا اور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس بندے کیلئے جنت کا فیصلہ ہے ۔ ( ابو داؤد و ترمذی )
بیٹیاں تو گھر کی رونق ہوتی ہیں اور جس گھر میں بیٹی نہ ہو وہ گھر کھنڈر نما لگتا ہے
بقو ل شاعر !
بہت چنچل بہت خو شنما سی ہوتی ہیں بیٹیاں
نازک سا دل اٹھتی ہیں خاموش سی ہو تی ہیں بیٹیاں
بات بات پر روتی ہیں نادان سی ہو تی ہیں بیٹیاں
ہے رحمت سے بھر پو ر اللہ کی نعمت ہیں بیٹیاں
گھر بھی مہک اٹھتا ہے جب مسکراتی ہیں بیٹیاں
ہو تی ہے عجب سی کیفیت جب چھوڑ کے جا تی ہیں بیٹیا ں
احدیث پاک میں آتا ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ بندے سے بہت خوش ہوتے ہیں تو اسے بیٹی جیسی نعمت سے نواز دیتے ہیں افسو س صد افسوس ہمارے معاشرے میں حوا کی بیٹی کی پیدا ئش پر افسو س کیا جاتا ہے ، رونا ، پیٹنا ہو تا ہے ، بعض باپ بیٹی کی پیدائش سنتے ہی پائوں پٹختے ہو ئے بیٹی کا چہرا دیکھے ، گھر یا اسپتال سے چلے جاتے ہیں اور بعض گھر انے کی بیٹی کی پیدا ئش پر بھی جشن منا تے ہیں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں اور یہی لوگ اللہ تعا لیٰ کے پسندیدہ بندے ہیں ۔ بعض گھرانوں میں اس عورت کو منحوس کہا جاتا ہے جو لڑکیوں کو جنم دیتی ہیں ، یہاں تک کہ شوہر بیوی کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر بیٹی پیدا ہو ئی تو طلاق دے دوں گا ۔ ذرا سو چئے ! کیا کسی عورت کے اختیار میں ہیں کہ وہ بیٹا پیدا کرے یا بیٹی۔ اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے !نازک سا دل اٹھتی ہیں خاموش سی ہو تی ہیں بیٹیاں
بات بات پر روتی ہیں نادان سی ہو تی ہیں بیٹیاں
ہے رحمت سے بھر پو ر اللہ کی نعمت ہیں بیٹیاں
گھر بھی مہک اٹھتا ہے جب مسکراتی ہیں بیٹیاں
ہو تی ہے عجب سی کیفیت جب چھوڑ کے جا تی ہیں بیٹیا ں
”اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چا ہتا ہے بیٹے عطا فر ماتا ہے یا ان کو جمع کر دیتا ہے کہ بیٹے بھی دیتا ہے اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتا ہے بے شک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے ۔ (سورت شوری : ۴۹۔۵۰)
خدارا بیٹی کو بوجھ نہ سمجھا جائے ہمارے میں بھی کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی بیٹی کو نحوست کی علامت سمجھتے ہیں اور ان کی کم عمری میں ہی شادی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت ساری معاشرتی اور جسمانی بیماریوں میں گھر جاتی ہیں ان کی زندگی عام لڑکیوں جیسی نہیں رہتی وہ معاشرے کے ہرفرد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کیونکہ بچپن میں ہی ان پر اتنے ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں کہ وہ اس معاشرے سے نالاں نظر آتی ہیں
اپنے دلوں میں بیٹیوں کی محبت پیدا کریں وہ زحمت نہیں بلکہ اللّٰہ کی رحمت ہوتی ہیں ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی چار بیٹیاں تھیں اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے محبت کرکے کے عملی طور پہ بتایا کہ بیٹیاں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں زحمت نہیں اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی بیٹیوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
نبی نے بیٹیوں کی ذات کو رحمت بتایا ہے
کرے ہر گز نہیں تعبیر کوئی ان کو زحمت سے
کرے ہر گز نہیں تعبیر کوئی ان کو زحمت سے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2024 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.