پاکستان کیوں ٹوٹا (حقائق و محرکات)‎‎

بدھ 15 دسمبر 2021

Mohammad Noman Sattar

محمد نعمان ستار

16 دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن بلکہ دو قومی نظریہ کہ جس کی بنیاد "لا الہ الااللہ" کی بنیاد تھا کا سیاہ ترین دن کہ جس دن مشرقی پاکستان کہ جو آج بنگلہ دیش کے نام سے وجود میں ہے ہم سے الگ ہوگیا اور محض سیاسی اختلافات،زبان،پٹ سن کی تجارت کو وجہ بنا کر ہم سے الگ کروا دیا اور اس دراڑ میں ہمارے دشمن انڈیا نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا بلکہ جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا تو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو توڑ ڈالا
ان تمام واقعات کو کو ہم دیکھتے ہیں کہ جس ملک خداداد کو کلمہ طیبہ کے نام پہ حاصل کیا تھا اور جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کی آزادی اور آزادی عبادت تھا اس کوکیسے توڑ کے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اس میں کون کونسے لوگ شامل تھے کہ جن کی نااہلی اور ذاتی انا کی وجہ سے آج ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہے
11مارچ 1948ء کا دن تھا،بنگال کے مرکزی شہر ڈھاکہ میں ہر طرف مظاہرے ہورہے تھے اور ان کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے اس مظاہرے کی قیادت کرنے والا کوئی اور شخص نہیں تھا بلکہ 1940ء میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال ابو القاسم فضل الحق تھے اور پورے پاکستان میں صرف ایک ہی بحث چل رہی تھی کہ کونسی زبان پاکستان کی قومی زبان کہلائی جائے گی؟
21مارچ 1948ء کو خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللّٰہ علیہ خود ڈھاکہ آئے اور عوام سے براہ راست خطاب کیا،انہوں نے بنگالیوں کو ان کی قربانیوں اور جدوجہد آزادی پر مبارکباد پیش کی،پھر انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہونی چاہیے اور کوئی دوسری زبان نہیں اور قائد اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کہ الفاظ یہ تھے کہ" کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی کہ جب تک ان کی ایک زبان نہ ہو"
اور بنگالی زبان کے حوالے سے کہا کہ بنگالی زبان کو صوبہ بنگال کی قومی زبان قرار دینے کےلئے آئین میں ترمیم کرکے وہاں کی سرکاری زبان بنا دیا جائے گا کیونکہ بنگال کے لوگ قائد اعظم کی دل سے عزت کرتے تھے تو ان کی بات مان لی لیکن جب 11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات ہوئی اور بنگالی عوام کو زبان کا مسئلہ حل ہوتا نہ دکھائی دیا تو انہوں نے پھر مظاہرے کرنے شروع کردیا اور یہاں تک نہیں بلکہ 23 جون 1949ء کو مسلم لیگ کے مقابلے میں اپنی سیاسی پارٹی عوامی مسلم لیگ بنالی،اور بعد میں اس پارٹی کا نام عوامی لیگ پڑھ گیا،اس جماعت کے پہلے صدر مولانا بشانی تھے اور اس کے جوائنٹ سیکرٹریز میں تحریک پاکستان کے ایک رہنما طالبعلم بھی تھے جن کا نام شیخ مجیب الرحمٰن تھا وہ ایم- ایس-ایف کے صدر رہ چکے تھے 1949ء کے بعد اس تحریک نے زور پکڑا اور پھر زیادہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب 1952 میں ایک بنگالی رہنماء خواجہ ناظم الدین جو کہ اس وقت کے وزیراعظم تھے نے اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہونی چاہیے کیونکہ اس وقت پاکستان کا آئین بن رہا تھا اور یہ اعلان کرنا اس وقت کی اہم ضرورت تھی،اور اس کے بعد مشرقی پاکستان میں مظاہرے شروع ہوگئے،اس سب کو روکنے کےلئے ڈھاکہ کہ مجسٹریٹ نے دفعہ 144 نافذ کردی لیکن ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالبعلموں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا اور سڑکوں پر نکل آئے پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو یہ مظاہرے اور مشتعل ہوگئے،طلباء نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں موجود پولیس کے جوانوں پر حملہ کردیا جس سے کہی پولیس کے جوان زخمی ہوئے تو انتقامی کارروائی میں پولیس نے فائرنگ کردی جس سے 5 طلباء مارے گئےاور یہ بات ہر طرف پھیل گئی کہ بنگالی زبان کےلئے 5 طلباء نے قربانی دے دی،مشرقی پاکستان میں طلباء نے سٹرائیک کردی سرکاری دفاتر میں پاکستانی پرچم سرنگوں کردیے گئے،حالات مزید کشیدگی کی طرف بڑھے تو فوج طلب کرلی گئی اور ڈھاکہ شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا،23 فروری 1952ء کو عوامی لیگ نے ہڑتال کی کال دے دی اور یوں یہ مظاہرے بڑھتے گئے اور اس سب کا مرکز ڈھاکہ یونیورسٹی تھی،سو یونیورسٹی کو کچھ عرصے کےلئے بند کر دیا گیا جس سے فسادات میں کچھ کمی آئی جس کا فائدہ عوامی لیگ نے دو سال بعد صوبائی الیکشن میں خوب اٹھایا اور یہ پاکستان کا سب سے پہلا الیکشن تھا جو کہ مشرقی پاکستان میں ہورہا تھا،عوامی لیگ 3 دوسری قوم پرست تنظیموں کے ساتھ مل کر پاکستان مسلم لیگ کے سامنے آئی جن کا 21 نکاتی ایجنڈا جس کو جکتو فرنٹ یا یونائیٹڈ فرنٹ کہتے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کو مکمل خود مختاری دے دی جائے صرف ڈیفنس، کرنسی،امور خارجہ اور مواصلات صرف مرکزی حکومت کے پاس ہوگی اور بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے اور اس جکتو فرنٹ کی قیادت شیر بنگال اے-کے-فضل الحق کررہے تھے، اس الیکشن کہ جب نتائج آئے تو وہ حیرت انگیز تھے مشرقی پاکستان سے جکتو فرنٹ نے %97جبکہ مسلم لیگ نے %3ووٹ حاصل کیے اور اس عبرتناک شکست کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جکتو فرنٹ کے نوجوان لیڈر خلیق الزمان جو کہ اس وقت ایک طالب علم تھے انہوں نے مسلم لیگ کے وزیر اعلیٰ نواالآمین کو انہی کے حلقے میں الیکشن بہت ہی بڑےمارجن اسے ہرا دیا اور وہاں کے نئے وزیر اعظم شیر بنگال اے-کے-فضل الحق بنے اور اس جیت کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ 19 اپریل 1954ء کو بنگالی زبان کو اردو کے ساتھ ساتھ قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا لیکن خود مختاری کا حق نہ دینے کی وجہ سے پھر مظاہروں اور لڑائی جھگڑوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا،جکتو فرنٹ میں دراڑ آئی تو فسادات پھر سے شروع ہوگئےاور 400 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوگئے جس کی بنیادی وجہ فضل الحق حکومت کا بروقت اقدامات نہ اٹھانا اور انڈیا سے شرپسند لوگوں کا داخل ہونا اور کیمونسٹ کے ساتھ مل کر مظاہرے کرنا قرار دیا گیا اور فضل الحق نے نظریہ پاکستان کی دیوار کو توڑ کر رکھ دی ہے اور وزیراعظم فضل الحق پر غداری کا الزام لگ گیا لیکن انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا لیکن مقامی اخبارات کی طرف سے یہ الزامات رکنے کا سلسلہ نہ تھما اس تمام حالات میں گورنر جنرل غلام محمد نے 23 مئی 1954ء کو فضل الحق حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کردیا اور سکندر مرزا جن کا تعلق بنگال ہی سے تھا وہ گورنر جنرل بنگال بنادیے گئے اور اتنی بڑی اکثریت سے جیتنے والی حکومت کو محض دو ماہ کے اندر غداری کا الزام لگا کر گھر بھیج دیا گیا، وہ شیر بنگال کہ جس نے قرارداد پاکستان پیش کی تھی غدار کہہ کر گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور جکتو فرنٹ کے 659 رہنماوں کو گرفتار کرلیا گیا جس میں اس وقت کے منسٹر آف ایگریکلچر شیخ مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے،1958ء میں شیخ مجیب الرحمٰن جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد پھر گرفتار ہوئے لیکن اس گرفتاری نے ان پر کافی پراثر ثابت ہوئی اور اسی وقت انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب بنگال کی آزادی کےلئے سر توڑ کوشش کریں گے اور پھر 1963ء میں عوامی لیگ کے صدر منتخب ہوئے
1964ء میں اگرطلہ کے مقام پر ایک خفیہ سازش ہوئی جس کو اگرطلہ سازش کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں انڈین انٹیلیجنس کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے جس میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے موضوع کو زیر بحث لایا گیاکہ کس طرح انڈیا بنگلہ دیش کی آزادی کےلئے اپنا کردار ادا کرے گی اور بھارت کی جانب سے شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کی ٹیم کو بھاری فنڈنگ بھی کی جاتی تھی جس کا ذکر مقامی اخبارات میں شائع ہوتا رہا،اس کے ساتھ ساتھ شیخ مجیب الرحمٰن سیاسی لحاظ سے بھی کام کرتے رہے اور انہوں نے تمام پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں 6 نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس میں بنگال کی خود مختاری،اور دوسرے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا،22فروری1966ءکو عوامی لیگ کی مجلس عاملہ کی طرف جانب سے یہ 6 نکات منظور کر لیے گئے جس کے پمفلٹ بنوا کر عوام میں تقسیم کرنا شروع کردیے،ایوب خان کی حکومت اس کو پاکستان کے خلاف غداری قرار دینے لگی اور شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرلیا گیا اور اگرطلہ منصوب کا بھانڈہ پھوٹ گیا اس خبر کے کھلتے ہی ایوب خان کی حکومت حرکت میں آئی اور نیوی اور آئر فورس کے 28 افسران کو گرفتار کرلیا گیا
1968 میں شیخ مجیب الرحمٰن جو کہ پہلے سے حراست میں ہی تھے کو باقاعدہ طور پہ گرفتار کر لیا گیا اور عوامی عدالت میں35 لوگ جو اس کیس میں گرفتار تھے کو لایا گیا،جس کو شیخ مجیب الرحمٰن نے ماننے سے انکار دیا بلکہ اپنے خلاف سازش قرار دیا گیا،حکومت نے شیخ مجیب الرحمٰن اور دوسرے تمام ملوث لوگوں کی ایک طویل لسٹ پیش کی جس سے لگ رہا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کو کڑی سزا ملے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا کیونکہ پراسیکیوٹر نے کیس کو اتنا لٹکایا کہ عام لوگوں کو ملزموں پر ترس آنے لگا اور ایسے کمزور دلائل پیش کیے کہ اس کیس کی کایہ ہی پلٹ گئی اور ساتھ ہی ساتھ ملزمان نے عدالت میں آکر یہ کہا کہ ان سے زبردستی اس جرم کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے،پھر ایک قتل ہوا ور ڈھاکہ شہر میں پھر سے مظاہرے شروع ہوگئے یہ قتل اور کسی کا نہیں تھا بلکہ اگرطلہ کیس میں قید ان 35 لوگوں میں سے ایک کا تھا جو جیل سے بھاگنے کی کوشش کررہا تھا اس کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف ایک تحریک چلی اور اس میں کلیدی کردار طلباء کا تھا انہی ہنگاموں میں ایک طالبعلم شہید ہوگیا جس کی وجہ سے پورے ملک کے طلباء سراپا احتجاج ہوگئے جس سے پورے ملک کے حالات مزید خراب ہوگئے، 21 فروری 1969ء کو جنرل ایوب خان نے ملک میں عام الیکشن کروانے کا اعلان کیا اور اس کے اگلے روز 22 فروری کو اگرطلہ کیس میں قید تمام لوگوں کو رہا کردیا،عوامی لیگ کے مطابق یہ جنرل ایوب خان کی ایک سازش تھی لیکن برطانوی مصنف کے مطابق یہ بات سچ تھی کیونکہ شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے ساتھی انڈین ایجنٹ سے ملتے رہے تھے بلکہ یہ سلسلہ ان کی رہائی کے بعد تک بھی جاری رہا،شیخ مجیب الرحمٰن کو بنگال کا دوست کا خطاب دیا گیا جب شیخ مجیب الرحمٰن آزاد ہوئے اس وقت پاکستان میں 1970ء کا الیکشن ہونے جارہا تھا تو شیخ مجیب الرحمٰن بھی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوئے، اس کے ساتھ ہی جنرل ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمٰن سے ملاقات کی جس نے بعد میں اہم کردار ادا کیا، مارچ 1969ء میں جنرل یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء لگا دیا اس ضمن میں شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ جاکر غیر بنگالیوں کے نفرت انگیز تقاریریں کیا چونکہ جنرل یحیٰی خان نے شیخ مجیب الرحمٰن کو اپنا مقدس بھائی مان لیا تھا تو انہیں کچھ نہ کہا جا کا شیخ مجیب الرحمٰن نے خوب فائدہ اٹھایا
28 نومبر 1969ء کو جنرل یحیٰی خان نے عام انتخابات کا اعلان کردیا اور اصول یہ طے کیا گیا کہ ایک آدمی کے پاس ایک ہی ووٹ کا حصول ہےاور اس ضمن میں جنرل یحیٰی خان نے دو شرائط رکھیں ایک یہ کہ اس ملک کا آئین اسلامی ہی ہوگا کیونکہ اس الیکشن میں جتنے والی پارٹی کو آئین بنانا تھا اور دوسرا یہ کہ نئی بننے والی اسمبلی نے چار ماہ کے اندر آئین پاس نہ کیا تو اسمبلی کو توڑ دیا جائے گا
1 جنوری 1970ء کو پاکستان میں سیاسی پارٹیوں پر عائد پابندی ختم کردی گئی اور زور شور سے الیکشن کی تیاریاں شروع ہوگئیں کیونکہ یہ الیکشن اکتوبر میں ہونے تھے جنرل یحیٰی خان شیخ مجیب الرحمٰن کی طرف سے اطمینان تھا کیونکہ انٹیلیجنس اداروں نے انہیں خبر دی تھی کہ شیخ مجیب الرحمٰن 314 میں سے زیادہ سے زیادہ 80 سیٹ ہی جیت سکیں گے اور پاور آف اٹارنی جنرل یحیٰی خان کی پاس ہی رہے گی ادھر شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا تاکہ جنرل یحیٰی خان پاور آف اٹارنی حاصل نہ کرسکیں سو 11 جنوری 1970 کو شیخ مجیب الرحمٰن نے ڈھاکہ میں ایک جلسہ کیا جس میں کل دو لاکھ روپے خرچہ ہوا اور میدان لوگوں سے کچھا کھچ بڑھا ہوا تھا لیکن دوسری جانب دوسری پارٹیوں کے لوگ مشرقی پاکستان میں بالکل دکھائی نہ دے رہے تھے ایک تو عوامی لیگ بنگالیوں کی مقبول ترین جماعت تھی دوسرا اگر کوئی اور جلسہ کرتا تو وہاں بنگالی دنگافساد کرتے اس جلسے میں شیخ مجیب الرحمٰن نے باضابطہ طور پہ بنگال کو بنگلہ دیش کہا
ڈھاکہ کہ اسی میدان میں جب جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا جلسہ کیا تو شرپسند بنگالیوں نے جلسہ گاہ کو آگ لگادی کئی لوگوں کو قتل کردیا جو بھی کہتا میں بنگالی ہوں اسے چھوڑ دیتے اور جو داڑھی والا کہتا میں مسلمان ہوں اس قتل کر دیتے بلکہ جو لوگ ہسپتال پہنچے ان سے بدترین سلوک کیا گیا دوسری طرف مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی الیکشن مہم زوروں پر تھی ان کا نعرہ تھا کہ ہم اسلام پسند آئین بنائیں گے
الیکشن سےپہلے جنرل یحیٰی خان نے ایک ایک آرڈیننس پاس کیا جسے آئی-ایف-اور کہتے ہیں جس کی شیخ مجیب الرحمٰن نے مخالفت کی کیونکہ اس آرڈیننس کے رو سے خود مختاری کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہوگا نہ کہ صوبوں کے پاس،شیخ مجیب الرحمٰن نے ایک موقع پر کہا کہ الیکشن کے بعد میں آئی-ایف-او کا شیرازہ بکھیر دوں گا اور مجھے کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا یہ ویڈیو لیک ہوکر جنرل یحیٰی کے پاس آئی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے کیونکہ شیخ مجیب الرحمٰن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ الگ ملک کی ہرگز بات نہیں کرتے لیکن الیکشن سےدو ماہ پہلے انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا کیونکہ مشرقی پاکستان ایک شدید سیلاب کی لپیٹ میں آگیا بلکہ یہ ہی نہیں نومبر میں اس طوفانی سیلاب کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ڈھاکہ کا باقی مشرقی پاکستان سے رابطہ معطل ہوگیا، تقریباً 6 لاکھ بچے مر گئے بلکہ نوکھالی میں ایک بھی بچہ زندہ نہ بچا اس کے ساتھ ساتھ نمونیا اور ہیضہ نے زور پکڑ لیں جس مزید لوگ کرگئے مشرقی پاکستان میں لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا شیخ مجیب الرحمٰن نے اس کو مرکزی حکومت کی نااہلی قرار دیا کیونکہ امدادی سرگرمیاں وقت پہ نہ پہنچ سکی تھی جس کی وجہ سے کثیر تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں دوسری طرف الیکشن ایک دفعہ پھر معطل ہونے کی کشمکش میں تھے لیکن شیخ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ اب کی بار الیکشن اگر ملتوی ہوئے تو دس لاکھ مزید بنگالی اپنی جان دینے سے گریز نہیں کریں گے سو انتخابات کےلئے 7 دسمبر کی تاریخ طے کی گئی لیکن الیکشن سے 5 دن پہلے 2 دسمبر کو مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور مشرقی پاکستان کے آس پاس کے علاقوں میں لوگوں کا قتل عام شروع کردیا جس کے خلاف پاکستان نے خوب آواز اٹھائی اور انڈیا کہ ہائی کمشنر کو بلا کر اسے کہا کہ بھارت ایسے گھناؤنے کاموں سے باز آجائیں لیکن پھر بھی بھارت نے اس پر کان نہیں دھرے
7دسمبر کا دن تھا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں لوگ جوش و خروش سے پولنگ اسٹیشن جاکر ووٹ ڈال رہے تھے تو یہ مسلئہ کھڑا ہوگیا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد انگوٹھے پہ جو سیاہی لگائی جارہی ہے وہ لوگ دھو کر پھر ووٹ ڈال رہے ہیں لیکن یہ معاملہ پھر تھم گیا الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان کی 169 سیٹوں میں 167 سیٹوں پر برتری حاصل کی جبکہ زوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان سے 83 سٹیں جیت کر فاتح قرار پائی،لوگ خوش تھے کہ اب ایک جمہوری نظام رائج ہوگا لیکن مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کے سابق صدر مولانا بشانی نے یہ مطالبہ کہ ڈالا کہ 1940ء قرار داد پاکستان کے تحت مشرقی پاکستان کو ایک الگ ریاست بنانے کےلئے ریفرنڈم کروایا جائے جس پہ شیخ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ یہ الیکشن ہی ریفرنڈم ہے
اب پورے ملک میں خانہ جنگی کی فضا پیدا ہوگئی بھٹو نے یہ نعرہ لگا دیا کہ اب جو مشرقی پاکستان جائے گا تو میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا اور یوں یہ نفرت کی آگ مزید بڑھ گئی اب شیخ مجیب الرحمٰن نے آئندہ پاکستان کے وزیراعظم بننا تھا لیکن اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بیانات میں کہا کہ ہم مشرقی پاکستان کو کبھی بھی اپنے اوپر حکومت نہیں کرنے دیں گے بلکہ اس کے خلاف سخت تحریک چلائیں گے ادھر ڈھاکہ کے ریس کورٹ میدان میں شیخ مجیب الرحمٰن نے دس لاکھ سے زائد لوگوں پہ مشتمل جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی صورت اپنے 6 نکاتی ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ادھر جنرل یحیٰی خان شیخ مجیب الرحمٰن کی ان باتوں سے سخت پریشان تھے اور کہہ رہے تھے کہ مجھے اس آدمی پہ یقین نہیں کرنا چاہیے تھا،اب جنرل یحیٰی خان شیخ مجیب الرحمٰن سے ملنے ڈھاکہ گئے اور ان سے کہا کہ وہ اپنے ساتھ مغربی پاکستان کو لے کر چلیں تب ہی پاکستان کا آئین تشکیل دیا جاسکتا ہے واپسی پہ ائر پورٹ پہ صحافیوں نے جنرل یحیٰی خان سے پوچھا کہ اگلی حکومت کس کی ہوگی جس کے جواب میں جنرل یحیٰی خان نے کہ آپ یہ بات شیخ مجیب الرحمٰن سے پوچھیں کیونکہ وہ ہی اگلے وزیراعظم ہیں پھر آپ لاڑکانہ کےلئے روانہ ہوئے جہاں نے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی،بھٹو نے مشورہ دیا کہ آپ اسمبلی کا اجلاس بلاوانے سے پہلے آئین میں ترمیم کریں جو کہ اس وقت کا ایک غلط مشورہ تھا اور ادھر مشرقی پاکستان میں یہ بات پھیل گئی کہ لاڑکانہ میں مشرقی پاکستان کے خلاف سازش ہورہی ہے اسی اثناء میں جنرل یحیٰی خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس 3 مارچ کو ڈھاکہ میں بلوا لیا،عوامی لیگ نے چھ نکاتی ایجنڈے کا مسودہ بھی تیار کرلیا اس کے برعکس بھٹو نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور حکم صادر کردیا کہ جو کوئی بھی مشرقی پاکستان جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا ادھر جنرل یحیٰی خان نے بھی اجلاس کو ملتوی کرنے اور مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا اور 1 مارچ 1971ء،کو اعلان کردیا کہ 3 مارچ کو ہونے والا اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے بنگالی سڑکوں پہ نکل آئے اور بھٹو مردہ باد کے نعرے لگانے لگ گئے یہ مظاہرے اتنے بڑھے کہ کرفیو لگانا پڑھ گیا ایک طرف فوج تھی تو دوسری طرف اسلحہ سے لیس بنگالی لوگ اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء بلکہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں باقائدہ ٹرینگ دینا شروع کردی گئی جس کی تصاویر آج بھی ڈھاکہ کہ میوزیم میں ملتی ہیں
ادھر جنرل یحیٰی خان نے قومی اسمبلی کے نئے اجلاس کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے 25 مارچ کو بلوا لیا اور ساتھ میں شیخ مجیب کو یہ پیغام بھیجوا دیا کہ وہ جلدبازی میں کوئی غلط کام نہ کریں انہوں نے جو عوام سے وعدے کیے ہوئے ہیں اس سے بڑھ کے ہی ان کو نوازا جائے گا ادھر شیخ مجیب نے جنرل یحیٰی کا تعریف کی اور تین مزید نکات پر عمل کرنے کا کہا ایک طرف شیخ مجیب ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء کے جذبات کو بھڑکا رہے تھے تو دوسری طرف امن کی باتیں کررہے تھے ادھر امریکہ نے اسے ایک سازش قرار دیتے ہوئے امداد نہ دینے کا فیصلہ کرلیا ادھر بھٹو نے 25 مارچ کو ہونے والے اجلاس کی مخالفت تو نہ کی لیکن چھ نکاتی ایجنڈے کو زیر غور لانے کےلئے کہا کہ اس معاملے کو پہلے حل کیا جائے اب مغربی پاکستان کے لوگ بھی شیخ مجیب الرحمٰن کے حق میں بولنا شروع ہوگئے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو وزیراعظم بنا دینا چاہیے ادھر مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے نوجوانو نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے لگانے شروع کردے کراچی کے جلسے میں بھٹو نے کہا کہ مغربی پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو جبکہ مشرقی پاکستان کا اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کو سونپ دیا جائے،اب جنرل یحیٰی خان شیخ مجیب الرحمٰن سے ملنے ڈھاکہ گئے تو شیخ مجیب الرحمٰن نے انہیں سیکورٹی فراہم کی جب آپ ایوان صدر پہنچے تو شیخ مجیب الرحمٰن نے ان سے ان کے دفتر میں ملاقات کرنے سے انکار کردیا کیونکہ انہیں یقین تھا ایوان صدر میں خفیہ کیمرے لگائیں گئے تو انہوں نے ایوان صدر کے واش روم میں جنرل یحیٰی خان سے ملاقات کی کیونکہ وہاں خفیہ آلات کا ہونا ناممکن تھا اور عوام میں یہ خبر پھیلا دی گئی کہ جنرل یحیٰی خان اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان میں عبوری حکومت پر اتفاق ہوگیا عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جنرل یحیٰی خان نے بھٹو کو ڈھاکہ آنے کی دعوت دی جس کو انہوں نے قبول کرلیا بھٹو جب ڈھاکہ پہنچے تو بنگالیوں نے ان پہ حملہ کردیا اور انہیں فوج کی نگرانی میں اجلاس کے مقام پر پہنچا دیا گیا ادھر مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے نہیں تحریک کا آغاز کر دیا اور پھر 22 مارچ کو قومی اسمبلی کے 25 مارچ کے ہونے والے اجلاس کو ملتوی کردیا اور وجہ یہ بتائی دونوں فریقین کے درمیان باہمی مفاہمت کی فضا قائم کی جاسکے جس کی دونوں طرف کے قائدین نے شدید مخالفت کرتے ہوئے مذاکرات ناکام ہوگئے اور مشرقی پاکستان نے 23 مارچ کو عام ہڑتال کا اعلان کردیا سرکاری عمارات پر سیاہ پرچم لہرا دیا بلکہ ایک رپورٹ تو یہ بھی آئی کہ پاکستانی پرچم کو آگ لگا دی گئی اور قائد اعظم کی تصویر پھاڑ دی ملک کے حالات کشیدگی کی طرف بڑھ رہے تھے تو جنرل یحیٰی خان نے 26 مارچ کو عوامی لیگ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی اور دوسری 26 اور 27 مارچ کی درمیانی شب کو ملٹری سچ آپریشن شروع کردیا گیا تھا اور جنرل یحیٰی خان کو بحفاظت مغربی پاکستان پہنچ چکے تھے سر چ آپریشن میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان سے کل 43000 پاکستان فوج کے جوان تھے جبکہ پورے بنگال کو کنٹرول کرنے کے لیے کم از کم 7 گنا بڑھی فوج چاہے تھی پاک فوج نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں آپریشن کرکے 3 گھنٹے میں اسے خالی کروا لیا ادھر شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان پہنچا دیا گیا تھا کیونکہ گرفتاری سے قبل انہوں نے اپنے ریڈیو پیغام میں بغاوت کا اعلان کیا تھا اس کہ بعد مشرقی پاکستان کے باغی فوجیوں کے کیمپ کو تباہ کرنا تھا ادھر بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا ہر کسی نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور جس کو جو ملتا قتل کردیتا ان جھڑپوں میں کئی بے گناہ لوگ بھی مارے گئے
11اپریل 1971ء کو جنرل نیازی نے پاک فوج کا چارج سنبھال لیا جنرل نیازی پہ سمگلنگ اور ریپ کے الزام بھی لگے لیکن انہوں نے اس سے انکار کردیا جنرل نیازی نے مشرقی پاکستان میں ہونے والے سرچ آپریشن کا الزام جنرل ٹکا خان پہ لگا دیا جو ان سے پہلے مشرقی پاکستان میں تعینات تھے اس ہنگامہ آرائی میں 30000 سے 50000 لوگ مارے گئے
3دسمبر کو جنرل یحیٰی خان نے پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کا معائینہ کیا کیوں کہ بھارتی فوج جون سے وقفے وقفے سے مشرقی پاکستان میں حملے کررہی تھی تو یہ ہی وقت تھا کہ بھارت کو جواب دیا جائے لیکن پاکستان کے پاس 45000 فوجی جوان تھے اور ان کا ساتھ جماعت اسلامی کی تیار کردہ فورس البدر اور الشمس کے نوجوان تھے جن کی تعداد تقریباً 73000 تھی اور ان کے مقابلے میں بھارتی فوج 250000 تھی اور وہ جدید آلات سے آراستہ تھی پاکستان کے پاس 14 جنگی جہاز جبکہ انڈیا کے150 جنگی جہاز تھے اس کے علاوہ وہ رات کو حملہ کرنے کےلئے جدید ٹینکوں کے ساتھ تھے اس کے مقابلے میں پاکستان کے پاس ایسے کوئی ٹینک موجود نہ تھے جو رات کے وقت مقابلہ کرسکیں اس کے علاوہ بھارت کو مشرقی پاکستان کے ایک کثیر تعداد میں بنگالیوں کی حمایت حاصل تھی
اب مشرقی پاکستان کو تینوں اطراف سے دشمن کی بمباری اور فوج کا مقابلہ کرنا تھا اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان نیوی 24 گھنٹے کے اندر بالکل تباہ ہوچکی تھی 6 دسمبر کی صبح بھارتی ائر فورس نے ڈھاکہ کا ہوائی اڈہ تباہ کردیا لیکن پاک فضائیہ بھی کچھ کم رہی
پاک فضائیہ کے دو لڑاکا طیارے تباہ ہوئے اس کے مقابلے میں بھارتی13 لڑاکا طیارے تباہ ہوگئے،زمینی لحاظ پہ بھی بھارتی فوج مکتی باہنی کے ساتھ مل کرکے جگہ پہ قابض ہوچکے تھے کیونکہ مکتی باہنی بنگال کے کونے کونے سے واقف تھے اور پھر ایک وقت یہ آیا کہ بھارتی فوج نے پاکستان فوج کو گھیر لیا کیونکہ بنگال میں زیادہ تر جنگل تھے تو ٹینکوں کی آمد کا پتا نہیں چلتا تھا، 6 دسمبر کو جنرل نیازی نے جنرل یحیٰی خان کو خط لکھا اور جنگ بندی کےلئے ان سے کہا جس کا جنرل یحیٰی خان نے کوئی جواب نہ دیا تو جنرل نیازی نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیا اور یہ بات پھیل گئی کہ جنرل نیازی اپنی فوج کو چھوڑ کے مغربی پاکستان بھاگ گئے لیکن بھر جنرل نیازی نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہر میدان میں مقابلہ کریں گے ادھر کارروائیاں تیز سے تیز تھی بھارتی فوج مکمل طور پر قابض ہو رہی تھی تو 14 دسمبر کو جنرل یحیٰی خان کا خط جنرل نیازی کو ملا
جس میں لکھا تھا کہ مغربی پاکستان کے لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہے کیونکہ بھارتی فورسز مغربی پاکستان میں داخل ہورہی تھی تو جنرل نیازی نے بھارت چیف آف آرمی سٹاف کو جنگ بندی کےلئے خط لکھا اس مسودے میں فوجی اور عام شہریوں کے تحفظ کی شرط رکھی گئی تھی جس کے جواب میں انڈین آرمی چیف نے روالپنڈی سے اجازت نامے کی شرط رکھ دی،روالپنڈی سے جواب میں کھل کے وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ جنگ بندی کی جائے یا نہیں یہ لکھا تھا کہ عوام اور فوج کے جان و مال کی حفاظت کےلئے جو اقدامات آپ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں جنرل نیازی میدان چھوڑ کر برما بھاگ سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ 300 پاک فوج کے جوانوں کے خاندانوں کو 3 ہیلی کاپٹرز میں برما بھیج دیا اور جنگ بندی کےلئے تمام تر اقدامات اٹھا لیے جنرل نیازی اور بھارتی 16 دسمبر 1971ء کو انڈین فوج کے سربراہ ریس کورٹ پہنچے جہاں جنرل نیازی نے انہیں سلوٹ کیا،جنگ بندی کی دستاویزات پہ دستخط کیے اور اپنا ریوالور انڈین آرمی کے سربراہ کو دے دیا جو آج بھی انڈیا کے میوزیم میں موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ مکتی باہنی سے بچنے کےلئے 19 دسمبر تک ہتھیار اپنے پاس رکھنے کی اجازت دی جو بعد میں ان سے لے لیے گئے اس فوج میں پاک فوج اور باقی رضاکاروں جن میں جماعت اسلامی اور دوسری تنظیموں کے 99000 لوگ گرفتار ہوئے اور 28000 کے قریب شہید ہوئے
سو 23 سال سے جاری یہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی اور اس کا سب سے زیادہ نقصان دو قومی نظریہ کا ہوا پاکستانی تاریخ میں 16 دسمبر یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :