پاکستان کی پست شرح خواندگی: حل کیا؟

منگل 28 جولائی 2020

Mohammad Umaid Farooqui

محمد عمید فاروقی

ہم اپنی روز مرہ  زندگی میں لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت پر کتنا انحصار کرتے ہیں شاید ہمیں اس کا اندازہ نہ ہو۔  اخباروں میں تبصرے اور تجزیے پڑھ کر ملکی و عالمی حالات سے باخبر رہنا  ہو یا حاضری رجسٹر میں اپنے نام کا اندراج کرنا، سائنس کے پیچیدہ مضامین کو سمجھنا ہو یا رجسٹری وصول کرنے کے بعد رسید پر دستخط کرنا ، ہر جگہ لکھنے اور پڑھنے کی یہ صلاحیت ہی استعما ل ہوتی ہے ۔

عام طور ان صلاحیتو ں کے حامل شخص  کو ہی خواندہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اب ذرا تھوڑی دیر کے لیے سوچیے  کہ اگر آپ سے لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت چھین لی جائے تو آپ کی روز مرہ زندگی کیسی ہوگی؟ آپ کو جس صورت حا ل کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا سامنا پاکستان کی ۴۳ فی صد آبادی ہر لمحے کرتی ہے۔

(جاری ہے)


 اقوام متحدہ کے ادارے گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی ۵۷ فی صد ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی ۴۳ فی صد آبادی  پڑھنے لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔ یہ محرومی نہ صرف ان کی زندگی میں مشکلات پیدا کرتی ہے بلکہ معاشرے کے لیے ایک مفید شہری بننے کی راہ میں بھی حائل ہوتی ہے۔نا خواندگی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو بھی بڑھاتی جس کے نتیجے میں معاشرے میں دو ایسے گروہ  وجود میں آتے ہی جو ایک دوسرے سے بالکل لا تعلق  رہتے ہیں۔

ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کے لیے ایک ایسے قلیل مدتی منصوبے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں شرح خواندگی میں  تیزی سے اضافہ ہو۔
 اس کی ایک بہترین مثال ۱۹۶۱ء میں کیوبا ء میں شروع ہونےوالی   خواندگی مہم ہے۔ کیوبا میں انقلاب کے بعد ۱۹۵۹ء میں فیڈل کاسترو کی سربراہی میں بننے والی حکومت نےکئی اصلاحات نافذکیں  جس کے نتیجے میں معاشرے کے نچلے طبقے کے طرز زندگی میں بہتری آئی ۔

ان اصلاحات میں صحت اور زراعت کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔۱۹۵۷ء کی مردم شماری کے مطابق کیوبا کی شرح خواندگی ۷۷ فی صد تھی یعنی ملک کی ۲۳ فیصد آبادی نا خواندہ تھی۔ اس ۲۳ فیصد غیر خواندہ آبادی میں ۱۰ لاکھ  بالغ افراد  بھی شامل تھے۔خواندگی کی شرح میں اضافے کے لیے حکومت نے ۱۹۶۱ء کو تعلیم کا سال قرار دے ملک گیر خواندگی مہم کا آغاز کیا جس میں رضا کاروں نے  گلیوں ،محلوں ، کھیتوں اور کارخانوں میں ناخواندہ افراد تک پہنچ کر انھیں تعلیم دی۔


 یہ مہم تین مرحلوں پر مشتمل تھی۔ پہلے مرحلے میں  نا خواندہ افراد کے لیے خصوصی نصاب تیار کیا گیا  اور اسے پڑھانے کے لیے   پروفیشنل اساتذہ کی مدد سے رضاکاروں کی تربیت کروائی گئی۔ یہ سلسلہ چار مہینے تک جاری رہا۔ مہم کے دوسرے مرحلے میں حکومت نے اسکولوں کو گرمیوں کی تعطیلات سے کچھ پہلے ہی  بند کردیا  تاکہ اسکولوں کے طلبہ بھی رضاکاروں کے ساتھ مہم میں حصہ لے سکیں ۔

نتیجے کے طور پر تقریباً ایک لاکھ طلبہ اس  مہم میں شامل ہوئے۔ان رضاکاروں نے ملک کے کونے کونے میں پھیل کر ناخواندہ افراد کو پڑھانا شروع کیا ۔ فیکٹریو ں میں کام کرنے والے نا خواندہ مزدوروں کو پڑھانے کے لیے فیکٹریوں کے ہی ۱۳ ہزار خواندہ مزدوروں کی خدمات حاصل کی گئیں جنھوں نے اپنے ساتھیوں کو خواندہ بنایا۔کہا جاتا ہے کہ کم و بیش ڈھائی لاکھ افراد نے اس مہم میں حصہ لیا جن کی  کوششوں سے ۱۹۶۲ء تک کیو با کی شرح خواندگی ۹۶ فی صد ہوگی ۔

اس دوران  تربیت حاصل کرنے والے رضاکاروں نے بعد میں بھی دیگر ممالک میں بھی تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور سلسلہ آج تک جاری ہے۔
پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے کیوبا کی طرز کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت چاہے تو نجی شعبے کے ساتھ مل کر خواندگی مہم چلائی جاسکتی ہے جس میں عوام میں سے رضا کاروں کو منتخب کیا جائے اور حکومت اس مہم کے لیے وسائل مہیا کرے۔

پاکستان میں نا خواندگی کی  ایک بڑی وجہ غربت ہے ۔ والدین اضافی آمدنی کے لیے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے مزدوری پر بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس وجہ  سے گلی محلوں ، کھیتو ں ، کارخانوں اور اس طرح کی دیگر جگہوں کے قریب اسٹریٹ اسکول کے طرز کے اسکول بنائے جائیں جہاں  نا خواندہ بچوں اور بڑوں دونوں کو تعلیم دی جائے۔
اگر حکومت اس قسم کا کوئی منصوبہ شروع نہیں بھی کرتی  تو ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے ہر خواندہ شخص کا فرض بنتا ہے کہ وہ  اس سلسلے میں اپنی ہر ممکن کوشش کرے۔

پاکستان  میں یونی ورسٹی کی سطح کے تقریباً ۱۳ لاکھ طلبہ موجود ہیں  اگر ہر طالب علم یہ عہد کرے کہ وہ  ہرسال دو افراد کو خواندہ بنائے گا تو ہر سال ۲۶ لاکھ پاکستانیوں کو  لکھنا اور پڑھنا سکھایا جا سکتا ہے۔اس کام کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں ۔ چاہے آپ ہوم ٹیوشن کا طریقہ اختیار کریں یا  کچھ دوست مل کر کسی پارک یا دوسرے عوامی مقام پر اسٹریٹ اسکول    کا آغاز کریں ۔اگر ہر خواندہ شخص اس کام کو اپنی سماجی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرے تو کچھ ہی سالوں میں ملک کی شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے جس کا براہ راست اثر نہ صرف عوام کے طرز زندگی پر پڑے گا بلکہ  یہ ملک کی سماجی اور معاشی صورت حال کے لیے بھی بے حد  مفید ثابت ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :