دلم پژمردہ

منگل 23 مارچ 2021

Mohammad Usama Hashim

محمد اُسامہ ہاشم

اپنے خیالات میں گم، اپنی سوچوں میں غرق تھا کہ اچانک کانوں میں ٹیلی ویژن سے اڑتی آواز پڑی، جس نے میرے چلہ نما ماحول کو تباہ کر دیا اور مجھ غریب الدیار انسان کو بے بس کر دیا کہ میں کروں تو کیا کروں؟ میری روح کو تڑپا دینے والی آواز کچھ  یوں تھی کہ "ایک دفعہ پھر سے فلاں ملک میں آپ (ص) کی ذات اقدس پر خاکے بناۓ گۓ ہیں اور پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں"۔

جیسے ہی یہ چند الفاظ میرے کانوں کے مہمان ہوۓ میرے وجود میں سے ایک گرم لہر دوڑ گئ اورمیرا خون کھولنے لگ گیا۔ کیا یہ پاکستان ہے؟ کیا یہ اسلامی جمہوریت ہے؟ کیا ہمارے وزراء اس قابل نہیں کہ اس چیز کی صرف مذمت ہی سہی پر کھل کر کریں۔ کیا یہ لوگ نابینا ہیں، یہ بہرے ہیں، یا پھر انہوں نے جمشید کی طرح پیالہ اپنے سامنے سجایا ہے۔

(جاری ہے)

وہ بھی ایک دور تھا جب قافلے کو لوٹنے والا ایسی گستاخی کرتا ہے تو صلاح الدین جیسا بے باک انسان اس کی گردن کو تن سے جدا کرنے کے لیے اس وقت کی طاقت سے الجھ کر ان کو ناکوں چنے چبوا دیتا ہے۔

وہ اکثر میرے استاد اقبال ناظر صاحب کہتے تھے،
"تہذیب کا تعلق ملک کے باشندوں سے ہوتا ہے، اور باشندوں کے شعور کا اندازہ ان کے چنندہ حکمرانوں سے ہوتا ہے اور حکمرانوں کی کامیاب حاکمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے تہزیب و تمدن کو کتنا بچا کے رکھے ہوۓ ہیں"
اور یہ بات کہنے کے بعد وہ ایک آہ بھرا کرتے ہھے۔ آج مجھے ان کی اس "آہ" کا مطلب سمجھ آگیا اور ساتھ ہی ساتھ  مجھے یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ میں کتنا شعور والا ہوں اور میرے حکمران کتنے غیرت مند۔


وہ اقبال "بال جبریل" میں لکھتے ہیں کہ، " نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے"، اور اب مجھے پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ کیسا یقین تھا انکا؟ کیسا مضبوط گمان تھا انکا؟ اب کون ہے ایسا جو اپنی ملت کے بارے میں ایسا سوچتا ہو گا۔ اب کون ہے جسے اس ملک کی بقا کا احساس ہو گا۔ کیونکہ اس ملک کے نام کا مطلب لا الہ اللہ ہے تو ناموس رسالت پر ہم اپنے فائدے کو دیکھ کر عالمی برادری کے سامنے کیسے چپ رہ سکتے ہیں۔

یہ نہیں تھا اقبال کا پاکستان، یہ  نہیں ہے جناح کی سر زمین ، یہ اب کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے اوپر اب کالے ناگوں کا راج ہے، یہاں اب محمود و ایاز جیسی کوئ مثال نہیں ملتی۔ یہاں اب عیسی کا گواہ موسی ہے اور ہم اپنے پرچم کے سامنے کھڑے شرمندہ ہیں۔ شیخ صاحب کہتے تھے کہ،
" ہمیں مغرب کی ہوا چبھنی چاہیے جبکہ اس نے ہماری آنکھوں کو چندھیا دیا ہے، اور یہ وہ شیطانی زنجیر ہے جس نے ہمارا سفر روک کر ہمیں باطنی غلام بنا دیا ہے اور ہم اس کے بھار کو محسوس نہیں کر رہے ہیں"
اور میں ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر راجہ گدھ کو اپنے سامنے رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ پتھروں کہ اس شہر میں، میں چوک میں لگا ایک آئینہ ہوں جو یونہی لکھتا رہے گا، کبھی تو انقلاب ایک بار پھر سے آۓ گا اور تبدیلی صرف نعروں تک محدود نہیں رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :