ابرآلود

منگل 9 مارچ 2021

Mohammad Usama Hashim

محمد اُسامہ ہاشم

اللہ جنت میں جگہ بخشے شیخ صاحب کو اکثر کہا کرتے تھے" بیٹا جب روشنی سے واسطہ نہ پڑے نا اور آنکھوں پہ پٹی بندھی رہےتو کافی وقت گزرنے کے بعد آنے والی روشنی چبھتی ضرور ہے"۔
حالات و خیالات بدل ہی جاتے ہیں لیکن نظریات بدلنے میں کافی وقت درکار ہوتا یے۔ ایسا ہی خیال میرے سمیت کئی لوگوں کا ہے۔ عام عوام سے لے کر خاص لوگوں تک زندگی کا مضمون بہت مختلف ہوتا ہے پر عنوان سبھی کا ایک، جیسے ہی بات عنوان سے آگے جاتی ہے تو الفاظ بھی بدل جاتے ہیں اور عمل بھی۔

مثال کے طور پر لے لیجیئے"اسلامی جمہوریہ پاکستان". با دل نخواستہ بات کرنی پڑ ہی جاتی ہے کہ نام بہت جوش و جذبے سے رکھا گیا تھا پر مغربی تہزیب کی چمک دمک  نے نظر کو خیرہ تو کیا ہی کیا پر ساتھ میں دماغ کے سسٹم کو بھی تباہ و برباد کر دیا۔

(جاری ہے)

باتوں ہی باتوں میں اکثر شیخ صاحب کہا کرتے تھے کہ "ہم بکے ہوئے آزاد پنچھی ہیں ".
میں اکثر ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتا تھا تو چڑ کر پوچھنے کی کوشش کرتا تو بات منحوس وقت پر ڈال دیتے تھے۔

جوں کے توں وقت گزرا اور کافی چیزیں سیکھنے کے بعد شیخ صاحب کی آخری بات کو سمجھنے کا انتظار کرنے لگا۔ ایسے میں ایک ڈرامہ "ارطغل" منظر عام پر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا گیا کہ کچھ عرصے کے بعد اس پر تبصرے سامنے آنے لگے تو بات سمجھ میں آنے لگی۔ "ارطغل غازی" میں نے بھی دیکھا اور مجھ خاکسار،ضعیف چشم اور ایک عقل سے کوسوں دور رہنے والے انسان نے مسلمانوں کی  بے مثال اور شاندار تاریخ پر واہ واہ کر چھوڑی۔

ڈرامہ میں کی گئی باتوں اور ادا ہونے والے الفاظ کو سنہرے حروف سے لکھے جانے کا خیال اپنے ایک عزیز کے سامنے پیش کیا تو ان کے چہرے پر عجب رنگ آنے لگے اور کہنے لگے "یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا ایسے ڈراموں کو دیکھنے کی بجائے اسلام کو کتابوں سے حاصل کرنا چاہیے".
میں نے بھی چپ کو اپنا مسکنن جانا اور ان کی گفتگو سے اندازہ لگا کر خیرباد کہہ دیا۔

کچھ دنوں بعد میرے عزیز مجھے دوبارہ ملے، تو ہاتھ میں گاڑی کی چابی دیکھ کر میں نے سوال کیا "میاں کہاں کی تیاری ہے"؟
تو کہنے لگے بچے ضد کر رہے تھے تو سوچا "مووی دکھا لائوں" تو پھر مجھے سمجھ آیا کہ فضا "ابرآلود" کیوں ہے اور پھر شیخ صاحب یاد آئے باتوں ہی باتوں میں سنایا کرتے تھے کہ "ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر" اور ساتھ ہی ساتھ ایک اور بات چسپاں کیا کرتے تھے کہ منکسر المزاج شخصیت پتا ہے کیا ہوتی ہے جو ہر انسان میں سے ایک اچھائی نکال لے اور اپنی زندگی بہتر بنا لے وگرنہ انسان کا حال اس بندے جیسا ہوجاتا ہے جو ساری زندگی صوفیوں کی کھوج میں لگا رہا اور سب کی ایک ایک غلطی ڈھونڈتا رہا اور ملی تو کیا بس خاک۔


حالات کتنی ہی کشیدگی کیوں نا اختیار کر لیں پر ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ" مغرب کی طرف جو جائے گا ڈوب جائے گا" کیوں کہ اسلام نے تو ہر صورت غالب آنا ہے۔ تسلیم کرنے والے ذلت سے مانیں یا سکون سے۔ ہم اکثر باتوں کا سمندر تیار کرتے ہیں فرضی کشتی بنا کر اس میں سوار ہو کر لہروں کا رخ حکومت کی طرف کر دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جیسے کامیابی کی طرف بڑھنے سے پہلے آغاز ایک چھوٹے سے قدم سے ہوتا ہے ویسے برائی بھی یونہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔

مغلوں نے بھی تو زمین کا ایک حصہ فراہم کیا تھا اور پھر جو ہوا تاریخ  جانے!
“زمانے پرانے کے ہیں یہ فسانے"کہ تب بحر ظلمات میں بھی گھوڑے دوڑا دئیے گئے تھے اور اب ہم اسلام کو چھوڑ کر تنازعات میں گھس بیٹھے ہیں۔ رشتے والی ماسی کا کردار عوام ادا کر رہی ہے اور پھپھو کا کردار اسمبلیوں میں بیٹھے وزراء۔ شیخ صا حب اکثر منٹو کی بات پر چڑ جایا کرتے تھے کہتے تھے کہ میں نہیں مانتا ایسی باتوں کو "توبہ توبہ" تو حاجی غلام آگے سے جواباً کہا کرتے تھے کہ،
“ہم آئینہ صرف خود کو سنوارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں" اس میں غلط کیا ہے شیخ صاحب، پھر خود ہی خامشی توڑتے حاجی صاحب اور ساتھ ہی ساتھ مرچی تھوڑی اور بھی ڈال جایا کرتے تھے۔


“اگر انسان باکردار نہ ہو اور رکھی اس نے داڑھی ہو، تو اسکی داڑھی کا رکھنا ایسے ہے جیسے طوائف کا برقع پہننا" کیوں کہ شیخ صاحب داڑھی والے تھے اور حاجی غلام کلین شیو تو بات بحث میں تبدیل ہو جاتی تھی۔
ایسے ہی حالات ہیں" اسلامی جمہوریہ پاکستان " کے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے خیالات اور نظریات کو بلند تر سطح پر پہنچائیں اور دوسروں کو ٹھیک کرنے سے پہلے اپنا محاسبہ کریں اچھائی جہاں سے ملے لے لیں اور دل سے منافقت کو بے دخل کر دیں ورنہ اگر من ہی پاپی ہو تو مسجد بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :