میں مجبور ہوں

منگل 18 مئی 2021

Mohammad Usama Hashim

محمد اُسامہ ہاشم

عید تو تھی پر وہ سماں نہیں تھا، نۓ کپڑوں میں جسم ملبوس تھا پر وہ سکون نہیں تھا، زہن میں بہت سی باتیں بہت سے خیالات لیے میں شیخ صاحب کے گھر کی جانب عید کی مبارک باد دینے کے لیے جا رہا تھا، شیخ صاحب جو کہ گھر داخل ہو ہی رہے تھے۔ میری آواز دینے پر، میری طرف متوجہ ہوۓ، میں پاس پہنچا اور عید کی مبارک باد دی اور گلے ملے پر گلے ملنے میں وہ گرم جوشی نہیں تھی۔

میں نے بس اتنا پوچھا کہ
 " شیخ صاحب کیا بات ہے اتنی ٹھنڈی مزاجی کیوں ؟"
 تو جیسے ایک دھاڑیں ماڑتا ہوا دریا بند توڑنے کی کوشش کر رہا تھا اور پھر اچانک کامیابی مل گئ۔
گرم جوشی کیسے دکھائ جاۓ، مزاج کو درست کیسے رکھا جاۓ، جب امتِ مسلمہ قربان ہو رہی ہو۔ فلسطین میں چارون طرف فساد و ظلم کی ہواؤں کو پھیلتا دیکھ  میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، میرا خون کھول رہا ہے پر "میں مجبور ہوں"۔

(جاری ہے)

  اس سر زمین پر ماؤں کی درد سے بھری آوازیں، بیٹیوں کی لٹتی عصمتیں، بہنوں کے اچھلتے دوپٹے اور بیویوں کا صفِ ماتم، یہ تمام مناظر دیکھ کر میرا سینہ پھٹتا ہے پر میں کیا کروں؟ میں مجبور ہوں۔ رات کو کانوں میں گونجتی آوازیں، میرا تلملاتا ضمیر، میری خون سے بھری آنکھیں، میرا تڑپتا وجود  اور میری چیختی ذات یہ مناظر کیسے بھلا دے اور اس بات کو کیسے پسِ پشت ڈال دے کہ میرے گلے میں جو کبھی غلامی کا طوق تھا، آج مجبوری کا طوق بن گیا ہے۔


وہ تمدن آفریں لوگ ، وہ ایسے با اخلاق کے جن سے دوسری دنیا کے بسنے والے لوگوں نے رہن سہن سیکھا، وہ ایسے جہاندار لوگ، وہ ایسے جہاں گیر لوگ جو کیا تھے؟ صرف بادہ نشین تھے۔ کہاں چلے گۓ؟ وہ غیرت مند لوگ کہ جن کی ٹھوکر سے پہاڑ سمٹ جاتے تھے، وہ صحراۓ عرب جو صحراؤں کا سینہ چاک کرتے تھے۔ کہاں گۓ وہ لوگ؟ اب صلاح الدین ایوبی کہاں سے آۓ؟
میرا وجود مجھے بھاری لگتا ہے۔

آج کے مسلمانوں کو بھول گیا ہے سب۔ آج کی حکومتوں کو پرانے اسباق یاد نہیں ہیں۔ پہلے صرف ٹیپو کے دور میں تھے میر جعفر اور میر صادق، اب یہ دونوں ہمارے ملک میں بر سر اقترار ہیں۔ تو کہاں سے جواب دیں ہم اور صرف ہم ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے اوپر سوالیہ نشان منڈلا رہا ہے کہ کیا تم مسلمان ہو؟ تو صحیح کہا تھا علامہ محمد اقبال نے کہ " کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟"۔

کہاں سے کریں ہم غور و فکر، کہاں سے لائیں وہ سوچ، ہماری نظروں کو تو خیرہ کر چکی ہے مغرب کی تہذیب، کہ ہم تو مغرب کا تعاقب کرتے چلاے جا رہے ہیں اور ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم قرضوں کے نیچے دبے ہوۓ لوگ کیسے مدد کریں فلسطین کے شہیدوں کی کہ جن کہ زبان پر صرف اور صرف پاکستان کا نام تھا۔  میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، میری ذات اپنے اس گلے سے غلامی کا طوق نکال باہر پھینکنا چاہ رہی ہے پر تمام کوششیں بے سود ہیں اور اس ظلم کی چکی میں ان فلسطنیوں کو پستا دیکھ کر بس صرف اتنا کہوں گا کہ
" اگر یونہی چلتا رہا تو کل ہماری باری ہو گی "۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :