آج کا نوجوان

بدھ 14 اپریل 2021

Mohammad Usama Hashim

محمد اُسامہ ہاشم

آج کافی تھکا دینے والا دن تھا اور پھر کہیں بہث و مباحثہ کی وجہ سے دن کی خرابی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ میں گھر پہنچ کر آرام کرنے کے خیال سے محظوظ ہو ہی رہا تھا کہ خدا جانے شیخ صاحب کہاں سے آ ٹپکے۔ سلام کیا، اور میری طرف دیکھنے لگ گۓ اور میں انکی طرف۔ دروازہ کھولا اور آمد کی وجہ پوچھنے ہی والا تھا کہ مجھ سے پہلے دروازے کو کھول کر اندر چلے گۓ اور سامنے پڑی کرسی کو بے ہنگم انداز میں صاف کیا اور اس پر بیٹھ کر بڑبڑانے لگے۔

  میں جسکا دن پہلے ہی خراب چل رہا تھا، شیخ صاحب کا رنگ بدلتا چہرہ دیکھ کر اپنی خرابی بھول گیا اور ان کی بے چینی کو سمجھتے ہوۓ بنا پوچھے پانی کا گلاس لا کے ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ پانی کا ایک گھونٹ پیتے ساتھ ہی کہنے لگے "نوجوان نسل اب وہ نہیں رہی ہے، جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا یا جس کے لیے جناح نے محنت کی تھی"۔

(جاری ہے)

میں نے اضطرابََ آگے سے جواب دیا کہ شیخ صاحب پانی لے تو آیا ہوں اور  کیا کروں؟ تو اسی غصیل شکل سے میری جانب دیکھنے لگے اور کہنے لگے، آج کا نوجوان اپنی راہ بھول گیا ہے، وہ بھول گیا ہے کہ اسلام کیا ہے، وہ اپنے بزرگوں کی دی ہوئ تعلیم کو تنگ ذہنیت سمجھتا ہے، وہ اپنی میراث پر فخر کرنے کی بجاۓ ہچکچاتا ہے، وہ اسلاف بھول گیا ہے۔

میں نے اس سے پہلے شیخ صاحب کو اتنا تلملایا ہوا نہیں پایا تھا۔ وہ جب بول رہے تھے میرا کان ان کی باتیں سن تو رہا تھا پر میری آنکھوں سے دماغ میں انکی بنی تصویر ان کے لفظوں پر ہاوی آ رہی تھی۔ میں نے ایک بار بولنے کی ناکام کوشش کی تو کہنے لگےتم میری بات سنو، یہ جو افراط و تفریط کا عالم ہے، اور ایک کا قہقہ دوسرے کی آہ سے دست و گریباں ہے،  اس طرح کے ماحول میں اپنے اوپر قابو رکھنا، ورنہ تم بھی شاہین اور کرگس کے فرق کو سمجھ نہیں پاؤ گے۔

میں بھی اب سنجیدہ ہو گیا اور ان کی بات کو سننے لگا۔ شیخ صاحب کا رنگ مزید لال ہو گیا مانو ابھی خون جسم سے باہر نکل آۓ گا۔ مزید کہنے لگے ، وہ کیا کہا تھا اقبال نے کہ
" پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں،
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ"
 آج کے نوجوان جو کاہلی اور سستی کی راہ پر چلے ہوۓ ہیں وہ کیا سمجھیں کہ خلوت پسندی کیا ہوتی ہے اور مرد مون کیا ہوتا ہے۔

مجھے آج اس نوجوان  پر افسوس ہو  رہا تھا جس نے میرا یہ حال کر دیا، نماز کا وقت تھا اور سپیکرز پر گانے بج رہے تھے، جن کی آواز نے پورے محلے کو' ڈسکو محلہ' بنایا ہوا تھا۔ جب اس لڑکے کے باپ نے آواز کم کرنے کو کہا تو آگے سے بپھرا اور کہنے لگا " ایک ہی تو سکون کا وقت ملتا ہے اور آپ وہ بھی مجھ سے چھین لینا چاہتے ہو"۔
نوجوان نسل ایک قوم کی ریڑھ  کی ہڈی ہوتی ہے۔

یہ تو سکون سمجھنے ہی کسی اور چیز کو لگ گۓ ہیں۔ یہ تو بھول بیٹھے ہیں کہ " نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہزیب مغرب کی" کا کیا مطلب ہے۔ نسل نو کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ پر ایسے کیسے جب یہ حالات ہوں گے کہ  "گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائ تھی" جب یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ
 "ہے دونوں کی پرواز اسی ایک جہاں میں،
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور"
 تو کیسے کرے گا یہ ملک ترقی۔

جب قربانیوں کو کتابوں کے سینوں پر سجا کر ہم اس کو وقت کی مٹی کے نیچے دبا دیں گے تو کیسے، آخر کیسے یہ ملک ترقی کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور ہم ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں آتے گۓ اور اب ہمارے ہاتھوں میں کیا ہے؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :