آخر کب

جمعرات 25 مارچ 2021

Mohammad Usama Hashim

محمد اُسامہ ہاشم

" تحریک انصاف نے نعرہ بلند تو کر دیا ہے پر معلوم یوں ہو رہا ہے کہ جیسے کوئ بادل صرف گرج رہا ہے پر ایک تیز ہوا کا جھونکا آۓ گا اور اس بادل کو لے اڑے گا" میں نے فوراا سے ان کے لبوں کو منجمد کیا اور اپنے الفاظ کو سوالیہ نشان لگا کر ان کے سامنے پیش کیا کہ " آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ابھی تو ووٹ دے دیا ہے ہم نے؟" تو شاعرانہ انداز میں کہنے لگے " ہم نے کسی اور طرح سوچی تھی، یہ دنیا اور طرح کی نکلی"  میں نے پھر اسرار کیا کہ درست انداز میں بات بتا دیں تو کہنے لگے پھر سے کہ " راز تب تک راز ہوتا ہے جب تک کوئ اسکی حقیقت کو نہیںں جانتا" میں اٹھ کے جانے لگا تو جھڑک کے کہتے ہیں استاد ہوں تمہارا اور مجھے کمر کرنے سے گناہ ملتا ہے اور ساتھ ہی جملہ رواں کیا کہ سب سے پہلی بات کا مطلب ہے پیاسی مٹی میں وہ ذرخیزی نہیں آئ "کیونکہ جو بات دل سے نکلتی اثر رکھتی ہے، پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے" میری آنکھوں کی بناوٹ کو دیکھ کر کہنے لگے بیٹا شعر کی درستگی پر نا جاؤ مدعا سمجھو کہ اس پارٹی کی طرف سے ہونے والی تقاریر کا کوئ اثر نہیں ہو رہا ہے نا مجھ پر اور نا کسی اور پر ہوتا دکھائ دے رہا ہے۔

(جاری ہے)

صرف اس میں وہ لوگ سامنے آرہے ہیں جو پہلے بھی کالی پٹی باندھے گھوم رہے تھے اور اب بھی گھوم رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو میں ایجوکیٹڈ تو کہوں گا پر ویل ایجوکیٹڈ نہیں اور دوسرے شعر کا مطلب یہ تھا کہ، جب آدمِ خاکی کو جنت سے بے گھر کیا تواس وقت اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ دنیا ایسی ہی اور یہاں یوں شور و غل بپا ہو گا اور جس پر آپ یقین کرو گے وہ آپ کے یقین پر پورا اترے گا، اور مجھے پی ٹی آئ پر یقین تھا، اب بھی ہے پر وہ بات نہیں ہے۔

اور تیسری بات مجھے پتا نہیں تھا کہ فردوس آپاں بھی اس پارٹی کی رکن ہیں اور ساتھ ہی  پچتھاوے سے آہیں بھرنے لگ گۓ۔ تو اتنےمیں میں نے سوالیہ انداز میں انکی جانب دیکھا تو کہنے لگے "ملال اس بات کا نہیں ہے کہ ووٹ دیا ملال اس بات کا ہے کہ شیطان وسوسے ڈالنے میں کامیاب ہو رہا ہے" اور یقین جانو تم، مجھے ابھی تک عمران کی تسبیح روکے ہوۓ ہے وگرنہ میں تو کب کا گمراہ ہو گیا تھا۔


سیاست ہو یا زندگی کا کوئ بھی حصہ شیخ صاحب اس پر عبور رکھتے تھے کیونکہ میرے پاس ان سے کم علم تھا۔ اس بات کا انہیں بخوبی اندازہ تھا اور وہ اس بات کا خوب فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔  "اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا" میں نے کہا " جی بہتر" تو کہنے لگے اس قوم میں عقابی روح کیسے بیدار ہو جب انکو اقبال نہیں پڑھنے آتا، پڑھنا کیا انکو پتا نہیں ہوتا کہ یہ اقبال ہے۔

خدا سے قربت کا دعویدار اگر آج زندہ ہو جاۓ تو پریشانی کے ساتھ سر پکڑ کر بیٹھ جاۓ کیونکہ ہر آنے والا زمانہ گزرے ہوۓ زمانے  سے اچھا نہیں ہو سکتا، شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ دوبارہ سے مسلم لیگ نہیں بن پائ اور تحریک انصاف، پھر سے انصاف کا دامن چھوڑتی نظر آ رہی ہے۔ اور اب انتظار ہے تو ایک اور جرنیل کا وہ آۓ اور ایک بار پھر سے اس دہائ کے نوجوان "اے پتر ہٹاں تے نئ وکدے" سن سکیں کیونکہ آثار مجھے ویسے ہی لگ رہے ہیں۔


شیخ صاحب کی ان تمام باتوں سے میں نے اندازہ لگایا ہوا ہے کہ ، ہم مجبوری کے دور میں کھڑے ہیں ۔ جہاں ہمارا دل تو چاہتا ہے ہم کچھ کریں پر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ایک بغلہ صفت قوم کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور اس میں کوئ دو راۓ نہیں کہ یہ قوم اب شٗتر بے مٗہار ہے۔ اس ڈوبتے سفینے کو بچانے کون آۓ گا اب اس پر آنکھیں جمی ہوئ ہیں۔ اور کب اس تابناک سر زمین پاک کی پیاری دھرتی کے مکھڑے پر آفتاب کی سنہری نوخیز کرنوں کی روشنی پڑے گی ؟ آخر کب؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :