مشرق بعید کے پاکستانی تارکین وطن

جمعہ 16 اکتوبر 2020

Mohammad Waqar Khan

محمد وقار خان

اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تقریبا 70 لاکھ پاکستانی آباد ہیں۔یہ ایک بہت بڑی اور دنیا کے کئی ممالک کی کل آبادی کے لگ بھگ تعداد ہے۔اس پہ مستزاد کہ ان میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے، یہ تارکین وطن بیرون ممالک سے رقوم بھیج کے ملکی معیشیت کئلیے گویا آکسیجن فراہم کرتے ہیں ، دنیا بھر کے تارکین وطن کی اپنے ملکوں کو بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں ساتویں بڑی رقم ،سالانہ تقریبا 18 ارب ڈالر پاکستانی تارکین وطن اپنے ملک بھیجتے ہیں،جس سے انکے اپنے گھروں کا نظام چلنے کے ساتھ ساتھ ،یہ سرمایہ ملک کی مارکیٹ میں استعمال ہوکر، معیشت کو تقویت دیتا ہے۔

پاکستانی تارکین وطن کا ایک بڑا حصہ عرب ممالک ، یورپ،اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مصروف عمل ہے ،لیکن مشرق بعید کے ممالک میں بھی پاکستانی ہنر مندوں ،طالبعلموں اور کاروباری حضرات کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے ،اور ان ممالک میں مقیم تارکین وطن کو شکوہ ہے کہ حکومت پاکستان انہیں ،دیگر ممالک میں آباد پاکستانیوں کی طرح اہمیت نہیں دیتی،نیز اس ریجن میں پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔

(جاری ہے)

جس پر توجہ دیکر ملک کیلئے زرمبادلہ کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔مشرق بعید کے اہم ملک ملائشیا کی پاکستان کو ایکسپورٹ 955 ملیئن ڈالر جبکہ پاکستان کی ملایشیا کو ایکسپورٹ تقریبا 235 ملئین ڈالر ہے۔جس کو تھوڑی سی توجہ سے کافی بڑھایا جاسکتا ہے۔ جبکہ آبادی کے تناسب سے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا کو پاکستان کی ایکسپورٹ 145 ملین ڈالر،اور امپورٹ 2۔

20 بلئین ڈالر ہے۔اور یہ پام آئل کی انڈونیشیا سے خریداری کی وجہ سے ایک بہت بڑا فرق ہے۔لیکن مارکیٹنگ سے یہاں بھی اپنی ایکسپورٹ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مشرق بعید کے دیگر ممالک مثلا سنگاپور کو ہماری ایکسپورٹ 136 ملئین جبکہ امپورٹ 780 ملئین ڈالر ہے۔ تھائی لینڈ کیلئے ہماری ایکسپورٹ 255 ملئین ڈالر ،اور امپورٹ 1.5 بلیئن ڈالر ہے۔ اسی طرح فلپائن کیلئے ہماری ایکسپورٹ 115 ملیئن ڈالر اور امپورٹ 55 ملیئن ڈالر ہے۔

واضح رہے،اس ریجن میں لاکھوں پاکستانی روزگار سے وابستہ یا شادیاں کرکے آباد ہیں،لیکن اس ریجن میں اوورسیز پاکستانیوں کو مسلسل نظر انداز کیے جانے کے ساتھ ساتھ ،حکومت کی طرف سے ایکسپورٹ کے مواقع کو اہمیت نہ دینے پہ بھی شکوہ کناں ہیں۔نیز دنیا کی بدلتی سیاسی دوستیوں ، کے تناظر میں ہمیں ان نزدیکی ممالک کے ساتھ پہلی فرصت میں دیرپا کاروباری اور دوستانہ تعلقات کی اشد ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :