تعلیم

اتوار 8 نومبر 2020

Mohammad Waqar Khan

محمد وقار خان

پاکستان میں ماضی کی نسبت ، عدم برداشت کا رویہ قابل تشویش حد تک بڑھ گیا ہے۔ عام گفتگو میں بات ہاتھا پائی ، جبکہ مذہبی بحث میں نوبت جان  ناحق کے زیاں تک چلی جاتی ہے ۔
ناپسندیدہ گہرائیوں میں جانے کی  بجاے اگر ہم صرف سامنے کی اور مجموعی وجہ کی بات کریں،تو ہمیں سمجھ لینا ہوگا ،  کہ پاکستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں انتہا پسندی کی بنیادی وجہ  سزا و جزا میں  عدم دلچسپی ، اور  ہماری عمومی جہالت ہے ، اور ان دونوں صورتوں کی ذمہ دار اب تک کی تمام حکومتیں ہیں،  نظام عدل کو بہتر بنانے کیلیے آج تک کسی نے دلچسپی نہ لی ، نیز قوم کو پہلے دن سے ہی تعلیم و تربیت سے عاری رکھ کے ، سابقہ تمام حکومتیں اس جرم  میں شریک ہیں۔

جسکی بنیادی وجہ بلاشبہ ، قوم کو جاہل اور تمام معاملات سے الگ تھلگ رکھ کے ،اپنے اقتدار کو دوام بخشنا تھا ،  تاکہ روایتی سیاستدانوں کو اپنے جلسوں میں نعرے لگانے اور مذہب فروشوں کو اپنے عقائد کو مسلط کرنے کیلیے ایندھن میسر رہے ۔

(جاری ہے)


ہم دیکھتے ہیں کہ قوم کے ان گنت معصوم مستقبل ، سڑکوں پہ مزدوری ،حتی کہ بھیک تک مانگتے نظر آتے ہیں،  پولیو ویکسینیشن کئلیے بچوں کوسات پردوں سے ڈھونڈ نکالا جاتا ہے۔

حتی کہ اگر فوج کی مدد کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ تو کیا وجہ ہے کہ تعلیم دلوانے کئلیے کوئی بندوبست نہیں کیا جاتا  ؟
ملک کے سرکاری سکولز  کا  نظام بتدریج  تباہ کرکے قوم کو پرائیویٹ مہنگی تعلیم کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا، جن میں  مافیاز  زیادہ ، اور  خدمت گار ، کم  ہیں۔
رواں سال میں 4.5 بلئین روپیہ تعلیم کیلئے مختص کیا گیا تھا ،جو کہ پچھلے  پیش کردہ بجٹس کی نسبت بھلے  بہتر  ،لیکن دراصل حال یہ ہے کہ  پاکستان کے کل 22.8 ملیئن سٹوڈنٹس کیلئے یہ رقم کچھ بھی نہیں،گو کہ یہ رقم براہ راست سٹوڈنٹس پہ صرف نہیں ہوتی،لیکن سادہ لفظوں میں اگر بات کریں، تو بجٹ کی یہ مختص کردہ رقم فی کس دو سو روپیہ بھی نہیں بنتی ۔


ملک کے ہر بچے کو تعلیم دینا حکومت کا فرض اولیں ہے ، تاکہ آنے والی نسل کل کو ملک اور دنیا بھر  کیلئے  کارآمد بنیں، لیکن سرکاری سکولز  کی زبوں حالی ، اور پرائیویٹ سکولز  کی ہر کس و ناکس کی دسترس میں نہ ہونے کے باعث ، پاکستان میں شرح خواندگی 50 صرف  فیصد کی شرمناک سطح پہ ہے ، جبکہ کل آبادی میں موبائل کا استعمال تقریبا 77 فیصد ہے ۔اسی طرح خطہ میں  اشاریوں کے مطابق ، انڈیا میں شرح خواندگی 61  فیصد ،اور موبائل کا استعمال  87 فیصد ہے ۔

افغانستان میں شرح خواندگی 38 اور موبائل استعمال 78 فیصد ہے،
ملائیشیا میں تعلیمی شرح  94 اور موبائلز  استعمال  125 فیصد ہے ۔  سنگاپور میں شرح خواندگی 97 اور موبائل  استعمال 144 فیصد ہے ( بعض اوقات ایک شخص کے پاس ایک سے زیادہ موبائلز بھی ہوتے ہیں، اس لئے یہ شرح بڑھ جاتی ہے )
اسکے علاوہ سری لنکا میں شرح خواندگی 91  فیصد ، مالدیپ میں 96 فیصد ، انڈونیشیا میں 94  ،  تھائی لینڈ میں 93  ، سعودی عرب میں 95  ،ترکی میں 96  ، ایران  اور  چائنہ میں 97  ، جبکہ  یو اے ای اور کویت میں یہ شرح 98 فیصد ہے۔


آپ دیکھیے گا  کہ  کم تعلیمی شرح والے ممالک ، ترقی کی رفتار میں کمی کے ساتھ ساتھ، شدت پسندی میں بھی نمایاں،اور زیادہ شرح خواندگی والی ممالک ترقی کی دوڑ میں آگے ہونے کے ساتھ ساتھ، عموما  شدت پسندی کے رحجانات میں مبتلا نہیں ہوتے۔
کیونکہ بے شک تعلیم کسی بھی شخص کے شعور کو جلا بخشتی ہے ،اور  تعلیم یافتہ شخص اپنے ملک و معاشرے کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔

نیز معاشرتی و مذہبی مسائل کو وسیع پیرائے اور روشن دلائل کے ساتھ سمجھ سکتا ہے ،وہیں ایک کم علم شخص، اپنے ارد گرد کے کسی بھی بہر وپئے کی باتوں میں آ کر اپنے  اور دوسروں کیلیے مسائل کھڑے کردیتا ہے ۔
گورنمنٹ کو معیاری اور قابل دسترس تعلیم کی دستیابی کو یقینی بنانا  ہوگا  ، وگرنہ اتنی انمول قربانیاں دے کر ،اپنے روشن مستقبل کی جو  امید ہم نے باندھی تھی ، وہ امید ہم سے منہ نہ موڑ  لے، اور کہیں یہ جہالت پہ مبنی عدم برداشت کا  عفریت ہمیں ایک ایک کرکے نگلتا نہ چلا جائے  ، اور  خدانخواستہ ہمیں دنیا میں قابل نفرت نہ  بنا چھوڑے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :