زندگی کا راز!!

ہفتہ 8 جنوری 2022

Moqadus Habiba

مقدس حبیبہ

دسمبر کی ڈھلتی اداس شام میں اپنے بوجھل دل کو اٹھاۓ ٹہلتی ہوئی نیلے آسمان پر چمکتے ستارے کو دیکھ رہی تھی.حسرت سے میں نے اس ستارے کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن بےسود.سرد ہوا کے تھپڑے میرے وجود کو سہلا رہے تھے.گہری آنکھیں ، ڈھیلا سا جوڑا ، سیبوں جیسے سرخ رخسار پر بہتے آنسو......بھری دنیا میں مجھے سواۓ اللہ کے کوئی سمجھنے والا نہیں تھا.سکول کے پہلے ہی دن میں نے انسانوں کے روپ میں جب دوست کو تلاش کرنا چاہا مجھے ناکامی ہوئی.میں ناک رگڑتی ہوئی روتی ہوئی اماں کی جھولی میں سر دیۓ روتی رہی.میری امی نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور بےاختیار بولیں:
اللہ سے دوستی کر لو ، ہر وقت اس سے باتیں کیا کرو۔


میرے معصومانہ سوالوں میں اضافہ ہوتا تھا کمی کبھی نہیں آتی تھی
امی! میں اللہ سے کیسے باتیں کروں؟
دل میں، سجدے میں، دعا میں،خوشی میں،غم میں،ہر لمحہ۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔
کسی نے ماریہ کے ساکت وجود کو جھنجھوڑا  ایک جھٹکے میں ہی وہ ماضی سے حال میں آچکی تھی.سہنری بند آنکھوں کو اس نے اس طرح کھولاجیسے سپی میں سے موتی نکلتے ہیں.ماہ نور چاۓ کا کپ اسے تھامے چل دی.چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہی اسے یاد آیا انٹرویو......کل تو انٹرویو لینا ہے.صبح ہوتے ہی ماریہ نے ریسٹ واچ پر نگاہ ڈالی اور مقررہ وقت پردفتر پہنچی. زندگی، خواہش ،حسرتوں کی بوریاں کندھے پر اٹھاۓ کسی راکٹ کی طرح وہ آفیس میں داخل ہوئی.مہمان گرامی کوئی اور نہیں اس کے عربی ادب کےاستاد تھے.میری سانسیں خلق میں درختوں سے لٹکتے پھلوں کی طرح اٹکی ہوئی تھیں.بوکھلاہٹ کا غلبہ اس سے پہلے مجھے پر طاری ہوتا میں نے کسی نیوز اینکر کی طرح سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔


زندگی کے سفر میں سب سے محبوب چیز کیا لگی آپ کو ؟
مدھم سے لہجے میں کہنے لگے زندگی میں مختلف اسٹیجز ہوتیں ہیں لیکن میرے والدی‍ن۔۔۔۔۔
میں نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور بےصبری سے دوسرا سوال کیا.میری طرح آپ نے اللہ کو بہت خط لکھے کبھی ان کے جواب موصول ہوۓ؟
اپنی گلابوں جیسی سرخ ٹوپی کو سیٹ کرتے ہوۓ کہنے لگے.بہت لیکن اس کا انداز مختلف ہوتا ہے.کبھی دل میں بات ڈال دی....کوئی اشارہ دے دیا.....اس طرح سے.
میں نے پروفیسر کی بات مکمل ہوتے ہی ایک منٹ کے اندر ہی سوال کیا
 پروفیسرمیں آپ کے آفیس میں بچوں کا ہجوم دیکھتی ہوں تو کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہوں کہ اگر ایک ہی سوال ہم کسی سے بار بار کریں تو انسان تنگ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

مجھے خیرت ہوتی ہے ان بچوں کی بھی رہنمائی کرتے ہیں جن کا تھیسز آپ کے ساتھ نہیں ہوتا ، اور کبھی نہیں پوچھتے کہ آپ کا تھیسز میرے ساتھ ہے ؟کیوں؟؟
 انہوں نے مجھے  وجوہات یا پھر نصحتیں کہوں دیں جو کہ درج ذیل ہیں
کوئی بھی مدد کے لیے آۓ اگر آپ کے لیے مکمن ہو تو مدد کر دیا کریں۔
اور یہ سب میرے بچے ہیں۔
کسی کی مشکل آسان کریں تو اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔

.
میں نے کسی چھوٹے بچے کی طرح اثبات میں سر ہلایا اور ٹوٹتے ہوۓ لہجے میں پوچھا کوئی ایسی تمنا ،دعا ، خواہش یا پھر حسرت کہوں کہ لگتا ہو کہ یہ لاحاصل ہے
انہوں نے نفی میں سر ہلایا.کوئی بھی نہیں
میں نے تمہید باندھتے ہوۓ کہا آپ ڈاکڑ،پروفیسر،حافظ، محقق، ادیب اور شاعر ہیں.شاعری کا ذوق کہاں سے آیا؟سکوت اور اضطراب آپ کی شاعری کے مجموعے ہیں ۔

ان کو کہاں پایا؟
میرے سوال کی اصلاح کرتے ہوۓ وہ گویا ہوۓ میں محقق بعد میں ہوں اصلاً میں ایک شاعر ہوں ، کالج کے زمانے سے ہی شاعری کی گردانیں یاد ہوتی تھیں۔
اکثر بچوں کو کلاس میں کہتے ہیں خاموش رہو کوۓ کھا کر آۓ ہو؟ خاموشی اور تنہائی کیونکر پسند ہے؟
اس پر وہ مسکرا دیے اور گویا ہوۓ کم بولنے سے بات کی اہمیت بڑھتی ہے.خاموشی بھی عبادت ہے۔


سر میرے مشاہدے کے مطابق سلف کنٹرول اور مستقل مزاجی مجھے آپ میں نظر آتی ہے.کیسے؟ اور کتابوں سے انسیت کس سن میں ہوئی؟
سلف کنٹرول بہت مشکل ہے بظاہر ، کتابوں سے لگاؤ مجھے بچپن سے ہی تھا۔
سر زندگی کا سب سے بڑا راز کیا ہے ؟بچوں کو کیا نصحیت کریں گۓ؟
"جو موجود ہے اس پر خوش رہنا سیکھیں"
انٹرویو اور سوالات یہی پر اختتام کو پہنچ چکے تھے میں نے شکریہ کے کلمات ادا کیے.میرے ہونٹوں پر تبسم پھیلا ہوا تھا.میں "زندگی کا راز" جانتے ہوۓ کسی پنچھی کی طرح اڑتی ہوئی اپنا سفر طے کرنے لگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :