علم کی پیاس!!

اتوار 19 ستمبر 2021

Moqadus Habiba

مقدس حبیبہ

حمیرہ جھیل کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ،ایک خوبصورت سی جل پری جس کا نام "سکوت" تھا محور گفتگو تھی.وہ اس جھیل کی ملکہ تھی ۔سر پر رنگین موتیوں کا تاج سجاۓ، دودھیا دانت،پرمسرت چہرا،سیاہ ریشمی بال،راج ہنس جیسی گردن۔
جو بھی تصویر بناؤں گا ادھوری ہوگئی
حسن تیرا کسی تصویر میں آۓ کیسے
جھیل کا پانی اس قدر شفاف تھا کہ حمیرہ کا عکس پانی میں ابھر رہا تھا.سورج کی ہلکی ، چمکتی ،نیم سی روشنی ، سرمائی رنگ کے بادل آسمان پر رقص کرتے ہوۓ ہوا کے ساتھ رواں تھے.اسی اثناء میں زمر نے حمیرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا.منظر جھٹ سے غائب ہوگیا تھا. اپنے ونڈرلینڈ سے واپس آتے ہوۓ اسے چند سیکنڈ لگے تھے.وہ لابریری میں پروفیسر کی لکھی ہو‎ ئی کتاب پڑھنے میں مشغول تھی جس کا نام "سکوت" تھا.اب کی بار زمر نے اسے کندھے سے جٹھکا چلو حمیرہ تھیسز کے لیے اپنا ٹاپک تلاش کر لو آج لاسٹ ڈیٹ ہے.یہ سنتے ہی اسے لگا جیسے منوں کا بوجھ کسی نے اس کے سینے پر رکھ دیا ہو.آدھے گھنٹے کی کاوش کے بعد اس نے ہتھیار ڈال دیے.۔

(جاری ہے)

لا‌ئبریرین اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ ریک سے ساری کتابیں نکال چـکی تھی۔لابریری سے فرارپا کر کوریڈور میں وہ سرجھکاۓ چل رہی تھی۔ایسے عالم میں اس کا ذہین سمجھنے سےقاصر تھا کہ وہ کیا کرۓ؟مایوسی حمیرہ کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔دروازے پر ہلکی سی دستک کے ساتھ اپنی دوستوں کے ہجوم میں حمیرہ بھی آفیس گھس گئ تھی۔کرسی پر پراطمینان طریقے سے بیٹھے ہوۓ ،پھولوں کی طرح کتابیں ٹبیل پرسجاۓ،اپنی سرخ سی ٹوپی سیٹ کررہے تھے۔

پروفیسر ناجل اور شفقت سے بھرپور کریم کیک کی مانند تھے۔اسٹوڈنٹس کے ناپورے ہونے والے مطالبات سنتے،ہنستے اورسمجھاتے۔ایک گہری سانس لیتے ہوۓ حمیرہ اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوۓ بولی سر!ہم  ریسرچ ورک کی پہلی سیڑھی میں ہی لڑکھڑا رہے ہیں،سب اس وقت عدم دلچسپی کا مظاہرہ کھلم کھلا کررہے تھے گویا کتابوں سے الرجی ہو۔معدوم سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر ابھری جیسے ہمارے اندر کی آواز اور ارادے سمجھ گۓ ہوں اور بےساختہ بولے:"وہ شخص زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا جو خود کو ایکسیوز دیتا رہتا ہے.مدنیہ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس درس گاہ اعظم کو دیکھا ہے کبھی؟ جس کی چھت کھجور کے پتوں سے اور ستون کھجور کے تنوں سے بناۓ گۓ تھے، جس کا نام مسجد نبوی تھا.اس کے الگ الگ گوشوں میں ان انسانی جماعتوں کے الگ الگ درجے کھلے ہوۓ ہیں.کہیں حضرت ابوبکروعمر ،عثمان وعلی جیسے فرماں روازیرتعلیم ہیں.کہیں حضرات طلحہ وزبیرومعاویہ وسعدبن معاذو سعیدبن جبیر جیسے ارباب راۓ وتدبیر ہیں.کہیں حضرات خالد ،ابو عبیدہ، سعدبن ابی وقاص اور عمر و بن العاص جیسے سپہ سالار ہیں.کہیں وہ ہیں جو بعد کو صوبوں کے حمکران ، عدالتوں کے قاضی اور قانون کے مقنن بنے.کہیں ان زہادوعباد کا مجمع ہے جن کے دن روزوں میں اور راتیں نمازوں میں کٹتی تھیں:ابو ذر،سلمان و ابودردا جیسے وہ خرقہ پوش ہیں جو مسیح اسلام کہلاتے تھے.کہیں وہ صفہ والے طالب علم تھے جو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچتے اور گزارہ کرتے،اور دن رات علم کی طلب میں مصروف رہتے تھے.کہیں حضرت علی ، حضرت عائشہ ،حضرت ابن عباس ،حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت جیسے فقیہ ومحدث تھے،جن کا کام علم کی خدمت اور اشاعت تھا".وہاں موجود اسٹوڈنٹس گونگے ہو گۓ تھے۔

حمیرہ قلفی کی طرح جم گئ تھی۔ ساکت۔۔۔۔ خاموش۔۔۔۔۔وہ چھوٹا سا قافلہ جو کبھی ڈگمگا رہا تھا دل میں ارمانوں کا ہجوم چھپاۓ علم کی پیاس بجھانے کے لیے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :