تغیر!

پیر 8 مارچ 2021

Moqadus Habiba

مقدس حبیبہ

ہرطرف بھرپور سناٹا تھا۔اسٹیج پرموجود شخص اعلان کرنے کے لیے تیارتھا۔لاریب کے ہاتھ برف کی مانند ٹھنڈے ہورہے تھے۔دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔بےچینی اور اضطراب کاعالم تھا۔دی بسٹ رائڑایوارڈ گوز ٹو۔۔۔۔۔۔گوز ٹو لاریب ۔ارے او لاریب اٹھ جاو کم بخت ماری سارا دن بستر توڑتی رہتی ہے۔مچھراس کا خون چوس رہے تھے،وہ چارپائی پرلیٹی ہو‎‎ئی تھی تکیے کے ایک طرف چند کتابیں اور دوسری طرف اس کا چشمہ پڑا ہوا تھا۔

اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں ۔نیلے آسمان پر سفید بادل ٹکڑوں کی صورت میں جگہ جگہ پھیلے ہوۓ تھے۔اس نے لخاف پڑے پھنکا اور صحن کے وسط میں سنک پرجھک کرپانی کے چھینٹے مارے اور خود کوآئینہ میں دیکھنے لگی ۔کتنی ہی حیسن تھی اس کے خوابوں کی دنیا۔اذیت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔

(جاری ہے)

‍‌وہ اس ننھی چڑیا کی مانند تھی جو ہوا میں پنک پھیلے اڑنا چاہتی تھی لیکن اس کے پرخون سے لت پت تھے۔

وہ جیسے جیسے بلندی کی طرف جاتی زمین پوری قوت سے اسے اپنی طرف کھنچتی۔کالج بیگ کندھےپرلٹکاۓ وہ سرجھکاۓ سڑک پرچلتی چونٹیاں دیکھ رہی تھی۔اسے تنہائی پسند تھی۔زندگی بعض اوقات ایسےمقامات پرلے آتی ہے کے انسان لوگوں سے نجات پانے کی کوشش کرتا ہے۔سب کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہتا ہے لیکن حالات کا تقاضا کچھ اور ہی ہوتا ہے۔اپنی منزل پر پہنچتے ہی اس نے اپنا سابقہ ہوم ورک  کرنا شروع کیا۔

کلاک بارہ بجا چکا تھا۔لاریب کی نیت خراب ہونے لگی اس نے فرار چاہی تھی ۔اس نے حلیے بہانے بنانے شروع کیے لیکن بےسود۔نبہیہ اسے گھیسٹتے ہوۓ کلاس روم میں لے گئ۔اس کا دل اچکاٹ ہورہا تھا۔کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپ نہیں سمجھا سکتے کے گوبھی گوبھی ہوتی ہےبندہ بندہ ہوتا ہے۔ہسڑی کی کلاس کا آ‏غازہوچکا تھا۔دونوں تیزطوفان کی طرح کلاس روم میں داخل ہوئیں۔

سرپرسندھی ٹوپی جما‎ۓ ہوۓ،سفید رنگ کے لباس میں ملبوس،سیاہ اورسفید رنگ کی ڈراھی۔دونوں ابھی نشتوں پرپہنچی بھی نہیں تھیں کے پروفیسربولے جی محترمہ! آپ شادی ہال میں آئی ہیں۔لاریب کے چہرے کا رنگ انڈے کی ذری کی طرح پیلا پڑگیا تھا۔نادامت دونوں کے چہرے سے عیاں ہورہی تھی۔پروفیسرنے ان کی جھکی گردن دیکھ کرسمجھ گۓ تھے اور دونوں کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔

حاضری لگانے کے بعد انہوں نے سب سے سوال پوچھا بچوں من کے سچوں آپ زندگی میں کیا بننا چاہتے ہیں؟یہ سنتے ہی سب باری باری بتانے لگے کسی نے کہا دلہا تو کسی نے کہا امی۔اب لاریب کی باری تھی اس کے رخسار ٹماٹروں کی طرح سرخ ہوچکے تھے بڑی جسارت سے وہ بولی مجھے رائڑ بننا ہے،مجھے اپنے استاد کی طرح ایک دن وہاں کھڑے ہوکر لکچر دینا ہے۔سب گردنیں موڑ موڑ کر اسے دیکھنے لگے۔

یہ سنتے ہی پروفیسرکے چہرے پر مسکراہٹ آگئ اس کے لیے آپ کو کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔یہ سنتے ہی کوہ ہمالیہ کے پہاڑاس پرآگرۓ تھے ایسا محسوس ہورہا تھا کسی نے لاریب کے منہ میں ہری مرچیں ڈال دی ہوں۔وہ جتنی گندی شکل بنا سکتی تھی اس نےبنائی۔پروفیسرسب سے الگ تھے،مرغی سے بڑا دل،شریر انداز،کتابوں سے انہیں محبت نہیں عشق تھا عشق۔دنیا کی تاریخ کی کتابیں ایک طرف اورپروفیسرایک طرف۔

لیکن ان کے الفا‎ظ دل کے کسی گوشے میں جاکراسےلگے تھے۔وہ دن گزرا تھا اور آج کا دن اس کے خواب نے حقیقت کا روپ دھارلیا تھا۔ شیشے سے بنا خوبصورت ایوارڈ پکڑے ہوۓ وہ اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں نمی آنے لگی۔بعض اوقات زندگی ایسے دوستوں اور بہترین استادوں سے اور قابل لوگوں سے ملاوتی ہے کے قدرت آپ پرمہربان ہونے لگتی ہےاور انسان کی زندگی میں تغیرآجاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :