زندگی اداس کیوں ہے۔۔؟

بدھ 9 ستمبر 2020

Mubeen Haider Bhutta

مبین حیدر بھٹہ

 کبھی تو زندگی اتنی سہل خوبصورت لگنے لگتی کہ ہر نظارہ دلکش و دلنشیں  دیکھائی دیتا،تو کبھی نجانے کیوں  اس قدر اداس،کھٹن کیوں محسوس ہوتی کہ دشوار لگنے لگتی۔۔۔۔ یقینا یہ ہمارےدل کی کیفیت ہمارے جذبات کا عکس ہوتی ہے جس کے  مطابق  زندگی ہمیں ویسی ہی محسوس ہو رہی ہوتی ہے جذبات مثبت تو زندگی خوشنما،پرسکون،اور جب خیالات تنگ ہوجاۓ تو زندگی اچانک تلخ ،بدنما ہوجاتی ہے۔

کیا ہی نظارہ ہو اگر دل کی کیفیت نہ بدلے زندگی سے سکون نہ جائے ہمیشہ موسم بہار رہے ،کبھی خزاں نہ آئے ،قدم نہ ڈگمگائیں ،نظر نہ بھٹکے ،سکون بھی سلامت رہے، روح بھی امن پائے اور ہمیشہ کا قرار میسر آجائے۔۔ پرسکون زندگی اک خواب نہیں ایسا ممکن ہے تو کیا ہے وہ نسخہ جس پر عمل درآمد کریں زندگی کی تلخیاں کم ہوجاۓ  قوت صبر میں اضافہ ،شکوے کم اور خوشیاں بڑھ جائیں تووہ نسخہ "شکر گزار بننا" اور "نا شکری" سے بچنا ہے  
 شکر خوشی اور سکون کا  باعث جب کہ غم ناشکری کی سزا ہے، غم میں بھی اگر شکر گزاری کو اختیار کیا جائے تو کم لگنے لگتا ہے اور عجب راحت و سکون اس کا نصیب بنتا ہے ۔

(جاری ہے)

جوکھو کر بھی شکر نہ چھوڑے،سمجھو اس نے کچھ نہ کھویا!  جو پا کر بھی شکر نہ کرے جان لو وہ یہ بھی کھو دے گا!
 ہماری اداسی اور پریشانی اور بے سکونی کی وجہ ہمارے حالات نہیں بلکہ  اصل وجہ ہماری ناشکری ہے،گلہ امید کو توڑتا اور اللہ پر یقین کمزور کردیتا ہے اور جہاں خدا پر یقین ڈگمگا  جائے، مایوس ہو جائے،تو ایسا دل اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے اور جو دل اس کی رحمت سے محروم ہو جائے وہاں شیطان اپنا ہتھکنڈا استعمال کرتا اپنے جال میں پھنسا لیتا اور نا امیدی مایوسی کے گڑھے میں دھکیل کر سکون چھین لیتاہے۔


 شکر گزاری کی عادت جسے نصیب ہو اسے غور سے دیکھیں جو سکون وطمانیت و قراراسے حاصل ہوگا وہ آپ کو صاف عیاں ہوگا بلکہ آپ بھی اس کی صحبت میں وہی لطف و چین پائیں گے۔ شکر خوشی و نعمت حاصل کرنے کا وہ قیمتی فارمولا ہے جو ہمارے خالق نے ہمیں بتایا ۔جس کی جستجو می‍ں ہم انسان در در بھٹکتے ہیں اور اس کی تمنا میں مادی چیزوں کا ڈھیڑ لگا بیٹھتے ہیں مگر پھر بھی دل بے کل اور خالی رہتا ہے کیونکہ ہم انسان  شکر نہیں  کرتے۔

۔ اور زباں سے شکر کا لفظ ادا کردینے سے شکر کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنے عمل سے ان کا شکر ادا کرنا ضروری ہے نعمتوں  کا اصل شکر اسے اس کی اطاعت و فرما برداری میں استعمال کرنا ہے۔۔ ناشکری اس کی نعمتوں کی نافرمانی ہے۔ جسے آپ کوئی معمولی سا تحفہ بھی دیں اور وہ شکر مند ہونے کے بجاۓ،آپ کے تحفے کی ناقدری ،گلے شکوے اور نقص نکالنے لگے تو آپ کا رد عمل  کیا  ہوگا؟ اللہ جس نے ہماری نافرمانی پر  نعمتیں  کم نہ کی  واپس نہ لی بلکہ اوقات  سے بڑھ کر نصیب سے زیادہ دیا اور دیتا ہی جا رہا ہے۔

۔ ہم گلہ کریں تو کیوں۔۔؟وہ ناراض نہ ہو تو کیوں۔۔؟
 شکر میرے رب کا حکم اور شکوہ اس کی ناراضگی کی وجہ ہے۔ "دینا "جس کی شان ہے دینے پر وہ کبھی نہیں تھکا، بلکہ نہ مانگنے پر خفا ہوتا ہے جس نے ہم پر نعمتوں کی فراوانی کردی۔۔ ایسی نعمتیں بھی ہمارا نصیب بنا ئیں جس سے ہم آشنا ہی نہیں ،اگر ان نعمتوں کو شمار کیا جائے، توآج کی تیز رفتار  ٹیکنالوجی کے  باوجود ایکوریٹ حساب  ناممکن ہے۔

۔ ہمارے جسم میں رگوں( وینvein) کا ایسا طاقتورجال بچھایا اور  انہیں الگ الگ کام پر لگایا،اگر کوئی ایک رگ بھی اپنا کام چھوڑدے، تو ہماری زندگی بوجھ بن جائے۔،۔ سانس لینے کے لیے ہوا پینے کے لئے تازہ بہتے چشمے یہ گوشت اناج سبزی غرض یہ کہ دھرتی پر انسان بنایا اور انسان کے لیے پوری کائنات تخلیق کر دی اور کائنات کی ایک ایک چیز انسان کے خدمت پر مامور کر دی۔

۔ سورج اپنے وقت پر طلوع ہوتا اور چاند اپنے وقت پر چھپ جاتا ہے۔۔ وسیع و عریض آسماں پر رات کی تاریکی میں  راہ دیکھانے کے لئے ستارےروشن کردئیے۔زمیں کو ہمارا بچھونا اور ہمارے فائدے کے لئے مسخر کیا۔ ۔ پھر بھی ہم نے ناشکری کم نہ کیِ۔  اللہ عزوجل فرماتا ہے" تم شکر کرو میں اور دوں گا "۔ در حقیقت  ناشکری   ہماری وہ دشمن ہے جو ہمیں خوش نہیں رہنے دیتی، تھوڑا،اور ،اور  زیادہ کی طلب ہمیں مضطرب رکھتی ہے۔

  سب سے بڑی یہ نعمت  اور اس کا کرم کہ جب اس نے زندگی دی تو بہترین زندگی گزارنے اور آسانی کے لیے اس کا عملی نمونہ  اپنے  محبوب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے رحمت بنا کر بھیج دیا جن کی زندگی کا ہر پل ہمارے لۓ مثال ہےاور ہدایت و رہنمائی کے لئے  قرآن کریم اتارا،، اور کہا تھام لو ،مضبوط رہو جمے رہو تاکہ بھٹکو نہ۔
 ہم اگر ان نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے اپنی مرضی اور  اپنی من مانی کریں تو سکون بھلا کیوں کر ہمارا نصیب ہو۔

اور زندگی کھٹن،اداس کیوں نہ ہو۔۔ اپنے کم علم اور کم عقل کے ساتھ خود بناۓ گئے اصولوں کے تحت اگر ہم نے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کی اور وہ راستہ اختیار کیا جو اپنے رب کی رضا کے خلاف ہو تو پھر بے چینی،گھٹن،اضطراب   ہی ہماری منزل ہوگا۔ اللہ سبحانہ تعالی ہمیں صرف اپنے رستے کا مسافر بنائے اور اپنا خوب شکر کرنے والوں میں ہمارا نام بھی شامل کر لے اور زندگی کی تلخیوں سے بچا کر راہ میں آسانیاں عطا فرماۓ آمین۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :