توقعات کا بوجھ۔۔۔۔۔۔

منگل 8 ستمبر 2020

Mubeen Haider Bhutta

مبین حیدر بھٹہ

 ہر انسان اپنی سوچ نظریات فلسفے عقائد اور تجربات کی بنیاد پر اپنے بنائے گئے ضابطے و قوائد کے تحت  زندگی گذارتا ہے۔۔۔۔ یہ نظریات و فلسفہ اس کے سیکھے گئے علم مشاہدہ یا ماضی کے تجربات کے ذریعے اس کے ذہین کے پردے میں نقش ہو جاتے ہیں۔۔ اور اگر وہ چاہے کہ اس کے بنائے گئے قوانین و اصول کے تحت ہر انسان خصوصاً جس کا اس سے واسطہ پڑے وہ  بھی زندگی گزارنے لگے تو  ایسا  نہ ممکن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔ اپنے مزاج کے خلاف ،توقعات کا، پورا نہ ہونے پر آپ کا لوگوں سے روٹھنا،گلہ شکوہ شکایت کرنا  کوئی  معقول وجہ نہیں۔۔ انسانوں پر اپنے فیصلے زبردستی ٹھونسنے کا حق ہمیں ہرگز حاصل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اپنے علم مشاہدے و عقائد کے مطابق کسی کی رائے کو تسلیم یا اس کے اصولوں کو فولو کرنا یا نہ کرنا ہر شخص کا اپنا حق ہے۔

(جاری ہے)

۔۔ یہ بات جو انسان جتنا جلدی سمجھ لے وہ زیادہ خوش اور شکر گزار رہتا ہے۔

۔۔۔۔ شکرگزاری وخوشی یہ ایسی چیزیں ہیں جسے حاصل ہوجائیں ترقی کامرانی و کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ شکوہ شکایت  کی عادت  انسان کو ناخوش رکھتی ہے ۔ اس کی نہ صرف کارکردگی متاثر ہوتی ہےبلکہ خیالات و جذبات احساسات بھی پاکیزہ نہیں رہ پاتے۔۔۔۔
 یہ فطری بات ہے کہ انسان اچھائی کے بدلے اچھائی چاہتا ہے بدلے  میں اگراسے اچھائی نہ ملے تو یہ نہ صرف اچھائی کو ترک کرتا ہے بلکہ  بعض  اوقات اُسے سبق اور مزہ چکھانے کے چکر میں اپنا امیج خراب کر کے بدلہ اور انتقام لینے کے در پر ہو جاتا ہے۔

۔۔
 اگر آپ کسی کو آسانی دیں کسی کے کام آئیں اوربدلے میں اس سے ویسے ہی امید لگالیں امیدیں نہ پوری ہونے پر عداوت، نفرت دل میں پروان چڑھا کر رشتے خراب کر کے ترکِ تعلق کو ترجیح دیں  تو یہ قصور دوسروں سے زیادہ خود آپ کا ہے۔۔۔
 لوگ اتنے برے نہیں ہوتے جتنا ہم اپنی توقعات کا بوجھ ان پر لاد دیتے ہیں۔۔اس بوجھ کو کم سے کم کر دیں تو رشتے خوبصورت اور زندگی حسیں ہوجاۓ اگر ہم یہ جان لیں اور دل سے مان بھی لیں کہ ہر شخص اپنے عمل کا خود جوابدہ ہے ہم سے اپنے عمل کے بارے میں پوچھ ہونی ہے۔

۔۔۔ہر انسان کی اچھائی خود اس کے اپنے آگے آتی ہے اور برائی خود اسکا راستہ روکتی ہے۔ اگر انسان دوسروں کو تبدیل کرنے سے زیادہ خود کو تبدیل کرنا شروع کر دے تو مسئلے آدھے ہو جائیں۔۔۔۔ ہمارا اختیار جو کہ خود پر سب سے زیادہ ہے اسے چھوڑ کر ہم لوگوں کو اپنے جیسا بنانے پر تلے رہتے ہیں۔۔۔۔  لوگوں کے مزاج کوہم قبول کر لیں۔۔ اور اپنے جذبات کو مینج کرنا شروع کردیں تو شکوہ شکایت کے لیے وقت ہی نہ بچے زندگی بہت تھوڑی ھے اسے مزہ چکھانے بدلہ لینے کی نذر مت کریں اسے خود پر لگائیں اصلاح کے لئے خود کا تزکیہ احتساب کریں جسے  تبدیل کر سکتے ہیں  لازمی کریں جو بدل نہیں سکتا اس پر اپنی  توانائی برباد کرنے کے بجائے دعا کریں۔

۔
 آج ہمارے معاشرے میں رشتوں کی عمارت میں دڑار آنے کی بڑی وجہ  آپس میں ایک دوسرے سے محض اس لئے خائف رہنا ہے کہ، لوگ ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر تے۔۔۔ وابستہ امیدیں جب ٹوٹتی ہیں تو وہ دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔۔۔ خلافِ تواقع نتائج پا کر غصے اور جلد بازی میں کیے گئے اقدامات اکثر رشتے توڑنے کی وجہ بنتے ہیں۔۔
 رشتوں کی خرابی کی دوسری وجہ احسان کے بدلے احسان کی امید لگا بیٹھنا ہے۔

۔ بہترین قدردان اللہ ہے۔۔ وہ شفیق رب جس کے پاس نیکی کا صلہ تو کئی گنا ملتا ہی ہے مگر وہ نیتوں کا بھی اجر دیتا ہے، بندوں سے قدردانی کی امید رکھ کر اپنے احسان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔۔۔واصف علی واصف کا جملہ"افضل احسان وہ ہے جس پر کیا جائے اسے خبر بھی نہ ہو" بےشک احسان مندی کا شکر بڑی نیکی ہے لیکن پھر بھی پھل اچھا نہ بھی ملے تب بھی نیکی کو اپنے رب کے لۓ جاری رکھنا چاھیۓ۔

۔اگر ہمارا کیا گیا ہر عمل خالص اللہ کے لیے ہو جاۓ تو۔۔۔ بندوں سے گلہ اور  بدلے کی امید باقی نہ رہے۔۔۔جس کی نیت خالص اور رب سے محبت سچی ہو ۔۔۔اسکا ہر عمل رب کی رضا کے لۓ ہوتا ہے اور جہاں رضاۓ الہی کی جستجو مقصد ہو وہ  بندوں سے صلے کی  پرواہ نہیں کرتا۔
ایک دوسرے کی کوتاہیاں انکی ناسمجھی،فہم کی کمی اور انکے مزاج کی خرابی جان کراگر ہم سۂہ جائیں۔

۔معاف کردیں ،بھلا دیں،آگے بڑھ جائی‍ں،تو رشتے بچ جائیں۔بے شک اللہ کا حکم ہے "معاف کرو ،معاف کردینا پرہیزگارو‍ں کی عادت ہے"لہذا تعلقات کی حفاظت کریں،رشتے خدا کا تحفہ ہیں۔۔انسان ،انسان کے بغیر ادھورا ہے،اسے زندگی گذارنے کے لۓ اس جہاں میں اور دنیاۓ فانی سے وقتِ رخصت  بھی ان کے کاندھوں کے سہارے کی ضرورت ہے
امیدیں اللہ کے سوا کسی بشر سے اتنی نہ لگائیں کہ جب پوری نہ ہوسکے کسی وجہ سے تو برداشت نہ ہو سکے اور اگر لگا بھی لی‍ں تو معافی اور غلطیو‍ں کو بھلادینے کا جذبہ بھی پیدا کریں۔


موضوع کا مقصد ہمیں ہر حال میں اچھا رہنا ،نیکی کرنا ،دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہں اڑانا اور اچھے رہنے کی مشق کو مرتے دم تک جاری وساری رکھنا ہے لوگوں سے توقعات ختم کرکے ان کے بجاۓ اللہ سے اس کا بدل لینا ہے۔انکے غلط رویۓ اور بد اخلاقی سے متاثر ہو کر اپنے اخلاق کی بلند عمارت کو گرنے نہیں دینا، بلکہ انتقام اور بدلے کی خاطر خود کو ان کے مقام تک گرانے  کے بجائے معافی سے اپنے عزت و وقار کو اور بڑھانا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :