توکل،صبراور خوفِ الہی۔۔۔

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Mubeen Haider Bhutta

مبین حیدر بھٹہ

 بہترین زندگی گذارنے اور دونوں جہاں کی فلاح کے اہم راز صبر ،توکل اور خوفِ الہی ہیں جو اس کو پا لے اس کے مطابق عمل میں خود کو ڈھال لے دائمی سکون اس کا نصیب بن جاتا ہے پھر ناساز حالات اسے توڑتے نہیں بلکہ مضبوط بناتے ہیں خدا پر اسکا اعتماد اسے ہر مشکل سے لڑ جانے کی قوت بخشتا ہے خوف الہی اسے سارے خوفوں سے آزاد کر کے بہادر انسان بنا دیتا ہے۔

توکل اور خوف الہی کی کمی انسان کو بے صبرا اور بزدل بنا کر مایوسی کے گڑھے میں دھکیل کرجینے کی امید بھی چھین لیتی ہے۔۔اور گناہوں کی کثرت بھی تب اور بڑھنے لگتی ہے جب اعتماد مانند پڑنے لگے خوفِ خدا رخصت ہو جاۓ اور صبر پھسل جاۓ۔
 آج معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اضطراب غصہ انتقام اور بہت سی دوسری  پھیلتی ہوئی برائیوں کی اصل وجہ اللہ پر توکل مضبوط نہ ہونا اور اس کے خوف کا کمزور پڑنا ہے۔

(جاری ہے)

کامل مومن وہی ہے جس کا اپنے رب پر توکل کامل ہو اور خوف الہی حاوی ہو ۔۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے" یہ قرآن مجید ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں"  یہ ڈرہی ہے جو انہیں بچاتا ہے اس کے غضب سے گناہوں سے ناراضگی سے جہنم سے  اور اس کی  آگ سے۔ اس کی کمی  اللہ کی رحمت سے دور کر دیتی اور اس کی ناراضگی کا سبب بن جاتی ہے۔

قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر یہ حکم بار بار دہرایا گیا ہے کہ اسی پر بھروسہ( اعتماد)کرو، ڈرتے رہو سواۓ اسکے کسی کا ڈر غالب نہ آنے دو،اسکا ڈر ہی نعمت ہے رحمت ہے ہدایت ہے زندگی کا امن ہے سکون ہے۔
 ذرا سوچیں اگر ہم اس کے ڈر اور اس پر توکل کو اپنے ایمان کا حصہ بنالیں  چاہے کچھ بھی ہو کتنی ہی پریشانیاں مصیبتیں ہمارا مقدر ہوجاۓ مگر ہم بھٹکے نہ، ثابت قدم رہیں بے صبری نہ کریں یقیں کی دیواریں لرزنے  نہ دیں خوف الہی کےسوا تمام خوفوں سے   بےخوف ہو جائیں نڈر ہو جائیں تو بتائیں  ہماری بے چینی ،گھٹن ،ٹینشن اور دل کی حالت کیا تب بھی وہی ہوگی؟
آج کا انسان نفرتوں میں جی رہا ہے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی چاہ نےاسے اپنے رب سے دور کردیا اس کے احکامات سے غافل کیا اس کا ڈر اور خوف ختم کرکے  رب پر یقین کو کمزور کر دیا۔

اب اسے جلدی ہے وقت نہیں اس کے پاس اسے آگے بڑھنا ہے بہت آگے، چاہے اس کے لئے کچھ بھی پیروں تلے روندنا پڑے اس کے احکامات کو بھلے توڑنا پڑے اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو وہ کچل دے گا اپنا انتقام وہ خود لے گا نفرت کو زندہ رکھ کر سبق سکھانے اور مزہ چکھانے کے چکر میں اپنی ساری کوششوں کو صرف کر دے گا اپنی  مرضی سے وہ اپنی راہ خود ہی بدل لے گا اپنے  ساتھ کی گئی زیادتیوں کا حساب وہ ضرور لے گا وہ معاف نہیں کر سکتا، اسے چھوٹا نہیں ہونا، اسے گرنا نہیں ہے وہ حساب چاھتاہے جب تک وہ ان کا سکون نہ چھین لے جس نے اسے بے چین کیا وہ سکون سے ہر گز نہیں بیٹھے گا۔


ایسا طرز عمل انداز فکر اگر ہم اپنے دشمنانِ اسلام کے ساتھ کریں جو ہمارے دین کو،ہمارےایمان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اپنے نفس کے ساتھ کریں جو ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے شیطان کے خلاف کریں اس کی سازشوں سے بچنے کے لیے اقدامات کریں تو کیوں ہم اس کی رحمت سے دور اور اس کی ناراضگی کا شکار بنے، سکون بھی بھلا ہم سے کیوں دور ہو۔  مگر ہم آپس کی عداوت، بغض نفرت،حسد میں جل رہے ہیں ٹوٹ رہے ہیں توڑ رہے ہیں بکھر رہے ہیں۔

ہر شخص اپنی جگہ صحیح دوسروں کو غلط ثابت کرنے اور بدلے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتا ہے مگر خود کو بدلنا جو اس کے دائرہِ اختیار میں ہے اس کی کوشش نہیں کرتا  انسان کی آنکھ اگر خود پر کھل جائے اور فکرِ اصلاح پیدا ہو جائے تو اس کے پاس نفرت حسد اور شکوہ شکایت کا بھی وقت نہ بچے یہ زندگی اصلاح کے لئے بھی بہت تھوڑی ھے  اسے  نفرتوں کی نذر نہ کریں،  چھوڑ دیں جانے دیں معاف کر دیں  اگر  خواہش ہو بدلے کی تو پھر اسے اپنے خالق کے سپرد دیں وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہر کیۓ کا حسا ب لینا والا ہے۔

صبر کریں ،غم نہ کریں ،بھروسہ کریں آپکے صبر کا اجر بھی ڈھیروں دے گا۔چین و راحت آپکا نصیب کر دیگا۔ صبر وہ نہیں جو دس لوگوں کے سامنے جتا کر رو کر کیاجاۓ صبر نام ہے چپ کرکے سھہ جانے کا ،ہر شخص  اپنے عمل کا جواب دہ ہے اپنے  عمل کو سنوارنے کی فکر زیادہ کریں ہر اچھی بات پہنچانا ہمارا فریضہ ضرور ہے مگر زبردستی اپنی مرضی مسلط کرنے کا حق ہمیں حاصل نہیں  پوچھ گچھ کرنا ہماری ذمہ داری نہیں۔


 چاہے جو بھی حالات ہوں ہمیں اسی پر بھروسہ کرنا ہے وہ ہمارے ساتھ ہے ہمیں آزمائے گا مگر منہ نہیں موڑے گا اس کی مدد آتی ہے اور ضرور آۓ گی اس کا وعدہ ہے ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اپنے بندوں کو وہ عزیز رکھتا ہے مشکلی‍ں اونچا اڑانے کے لۓ اسے مظبوط بنانے کے لۓ ہیں،آج اگر ہم شکستہ دل افسردہ نہ خوش ہیں تو اس کی وجہ ہماری غفلت ہے وہ غافل نہیں وہ  دور نہیں ہوا ہم خود دور ہو گئے مایوس ہوگئے  بے صبرے ہو گئے ہمارا یقین ڈگمگا گیا ہمارے قدم بہک گئے ہم نے خود کو اپنے نفس اور شیطان کے حوالے کر چھوڑا ہمیں پھر سےاٹھنا ہے قدم پھر سے جمانا ہے ربِ تعلق پھر سے استوار کرنا ہےتوکل اور اس کے ڈر کو اپنے دل میں سلامت رکھنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :