حیا ہی زندگی ہے۔۔

جمعہ 18 ستمبر 2020

Mubeen Haider Bhutta

مبین حیدر بھٹہ

حیا معاشرے کا حسن ،زندگی کا سکون ایمان کی شاخ،اخلاق کا نچوڑ،اسلام کا نور،ربّ تعالی کا حکم ،معاشرتی وسماجی نکھار ہے۔ حیا کا لفظ حیات سے ہے یعنی حیا زندگی  ہے دل کی اصلاح زندگیوں میں سنوار معاشرے کا امن حیا کہ بغیر  ناممکن ہے۔ حیا ہی بے راہ روی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔حیا نہ صرف لباس اور نظر میں بلکہ زندگی کے ہر عمل میں نظر آنے کا نام ہے۔


 آج لوگوں میں گناہوں کی طرف حدسے بڑھتی ہوئی رغبتی کا سبب دلوں سے حیا کا رخصت ہو جانا ہے۔حیااتنی ہو باقی کہ جب دل اپنے رب کی نافرمانی کی طرف لپکے تو اس کے ڈر اور خوف کی وجہ سے لرز اٹھے اور پیچھے ہٹ جائے مگر کرکے گناہ اگر احساس ندامت اور شرمندگی بھی نہ ہو تو اس بات کی علامت ہے کہ ایمان بھی باقی نہ بچا ہے مومن کی شان حیا ہے۔

(جاری ہے)

آپﷺکا فرمانِ عالی شان ہے"حیا جز وایمان ہے" آپﷺاپنی عملی زندگی میں بھی سب سے زیادہ شرم و حیا کے پیکر تھے۔

آج ہمارے معاشرے کلچر اور ہماری روایت میں اسلام کی جھلک کم غیر مسلم معاشرے کی مشابہت زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ ہم جس ٹرینڈ،رواج ،فیشن کی پیروی میں لگے ہیں وہ ہمارے  مذہب کے خلاف ہے۔ایک باحیا معاشرہ مسلم معاشرے کی پہچان ہے۔جس معاشرے سے اگر بد قسمتی سے حیا نکل جاۓ اس قوم کا اخلاقی زوال یقینی ہو جاتا ہے۔معاشرے کی پاکدامنی کا انحصار حیا پر منحصرہے،پر امن معاشرے کی بنیاد حیا ہے۔


اگر حیا میں کمی رونما ہونے لگے اور جن کاموں سے حیا یا نظر کے پھسل جانے کا خطرہ لاحق ہو اسے نہ روکا جائے اس کا سدباب نہ تلاش کیا جائے۔اور اس کی روک تھام کے لیے کوشش بھی نہ کی جائے بلکہ اس کمی کو موڈرنیزم کا نام دے کر اسلامی ہدایات و احکامات کو یکسر نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے بنائے ہوئے اصولوں و ضابطے  کو اپنانا اہم سمجھا جانے لگے۔

ایسے معاشرے کی پاکیزگی اور بلند ترین اخلاقی معیار کا قیام کیسے ممکن ہے
 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا" ہر امت کے اخلاق کی ایک خاص خوبی ہوتی ہے اور میری امت کے لوگوں کےاخلاق کی وہ خاص نمایاں خوبی حیا ہے"۔ ایمان کا دارومدار حیا ہے جس دل میں ایمان زیادہ ہو  وہ دل اور اس کی زندگی بھی حیا والی ہوگی۔آج اس خوبی کو ہم اگر بدل کردقیا نوسی سوچ قرار دے دیں تو پھر معاشرے کی بگڑتی و گرتی ہوئی اخلاقی صورتحال اور  بد  اخلاقی وبد تہذیبی کے وحشت ناک واقعات پر ماتم کیوں؟
 ہم نے اپنے دین اسلام کے اصولوں کو بھلا دیا معاشرے کا امن و سکون جس میں پوشیدہ ہے ہم نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے مٹا دیا ۔

اسلام حیا داری کا حکم دیتا ہے اسے قومی سطح پر فروغ دینا،حاکمِ اعلیٰ، سربراہوں کی ذمہ داری ہے  ۔ہمارا کلچر اسلامی احکامات سے غافل ہو رہا ہے ۔مغرب کی نقالی کی ریس میں لگا ہے اپنے رب سے منہ موڑا اور اس کے احکامات کو توڑا اور اپنی من پسند زندگی کے طریقوں کو اپنی منزل بنا لیا۔۔ مومن کی عزت جو اس کی اطاعت میں ہے اسے اپنے گلے کا طوق سمجھا نافرمانی کرکے خود کو مصیبت میں پھنسا لیا۔


 حیا کی قوت مومن کو نیکی کرنے اور گناہوں اور نافرمانی والے کاموں سے بچنے کی قوت فراہم کرتی اپنے رب سے اکیلے میں ڈر حیا پیدا کرتی ہے رب سے یہ حیا کہ وہ اس سے باخبر اسکی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے اور فرشتوں سے یہ حیا کہ اس کی ہر حرکت وسکنات کو لکھا جا رہا ہے اور بندوں سے حیا مروت کی وہ قسم ہے جو اپنے ہاتھ اور اعضاءسے کسی مومن کو تکلیف دینے می‍ں شرمندگی محسوس کرے، غیر اخلاقی،دل دکھانے والے رویئوں سے اجتناب برتے۔

رشتوں کے تقدس کا احترام کرے۔
 حیا کا حکم نہ صرف عورتوں پر بلکہ ہر فرد پر لازم ہے اس کے معنی چھوڑ دینا،روک جاناہے یعنی ہر اس کام سے خود کوروک لیں جو اللہ عزوجل کے حکم کے منافی ہو۔ہر اس شے ،بات،عمل اور طریقے سے خود کو بچائیں حیا کریں جو اسکی نارضگی و غضب کا باعث ہو۔ جہاں تک ہو سکے خود کو اپنے رشتے اپنے معاشرے اور اپنے ملک کو ایسے تمام گرد آلودکاموں سے صاف کرنے کی کوشیش شروع کردیں جس پر ایمان کے جانے اور حیا کے مٹنے کا اندیشہ ہو ہر شخص اپنے دائرہ اختیار میں حاکم ذمہ دار ہے اپنی زندگی میں حیا کے رنگ شامل کرکے اس کے رنگوں سے اپنے گھر اور ماحول کو سجا دیں  اور حیا کی جڑ کو اس قدر مضبوطی دیں کہ مغرب کی ہوا اور شیطان کی سازش بھی اسے اکھاڑ نہ سکے۔

۔ ایمان کی حفاظت کے ساتھ اپنی حیا کی سلامتی کے لیے بھی سرگرداں رہے جو طریقِ زندگی ہمارے رب کا حکم اور ہمارے نبی کی سنت ہے اسے اپنا لیں ہمارے معاشرے کے  بگاڑ کی بحالی اور قوم کی عزت اسلام اور اس کی پیروی میں ہے۔ اسے اگر ہم نے چھوڑا تو پھررسوائی بربادی اور ذلت کو روکنا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :