ہم زندگی سے ہارے ہوئے لوگ۔۔۔۔۔!

بدھ 22 جولائی 2020

Mudassar Aslam

مدثر اسلم

گزشتہ دنوں ایک نوجوان کی خودکشی کی خبرمیری نظر سے گزری۔ خودکشی کا یہ بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ ہم زندگی سے ہارے ہوئے لو گ ہیں۔زندگی دراصل خوشیوں اور غموں کی آنکھ مچولی کا نام ہے۔لیکن ہم ان پریشانیوں اور غموں سے گھبراکرایک بزدل شخص کی طرح شکست تسلیم کرلیتے ہیں۔ہم اپنی زندگی سے ایک بیوہ کی طرح سلوک کرتے ہیں۔

ہمیں اپنے آپ سے ایک سوتیلی ماں جتنی ہمدردی ہے۔ہمارے ارادے اورمثبت امیدیں زمانہ جاہلیت کی اس لڑکی کی طرح ہیں جنہیں پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیا جاتا ہے۔ہم ناامیدیوں کواکلوتی بیٹی کی طرح پال پوس کر بڑاکرتے ہیں۔ہم اپنی تمام مثبت سوچوں کواکٹھاکرکے کسی سمندرمیں پھینک آتے ہیں اور پھر منفی سوچوں کو ایک باغ کے مالی کی طرح روز پانی دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم اپنی زندگی کے ساتھ اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنا کوئی چھوٹا بچہ اپنے کسی کھلونے کے ساتھ ہوتا ہے۔آخر ایسا کیوں؟ کیوں ہمارا رویہ اپنی زندگی سے اس طرح کا ہے؟ کیوں ہم جلد ہی زندگی کے ہاتھوں مات کھا کر خو دکشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں؟میرے خیال سے اس کی سب سے بڑی وجہ زندگی سے متعلق ہماری تنگ نظری ہے۔ہم زندگی کو ایسے ہی دیکھتے ہیں جس طرح ایک تالاب کا مینڈک دیکھتا ہے۔

تالاب کے مینڈک کے لیے ساری دنیا تالاب ہی ہے۔بالکل اسی طرح ہم بھی کسی ایک ہی مقصد کوزندگی جینے کی وجہ بناتے ہیں اورپھر اگراْس کو حاصل نہ کر پائیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم زندگی ہار چکے ہیں۔مثال کے طور پراگر کسی شخص کی زندگی کا مقصد پیسہ کمانا ہی ہے تو اگر وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہو پایا تو وہ جلد شکست تسلیم کر کے خودکشی کی طرف مائل ہو جائے گا۔

بالکل اسی طرح ہم چھوٹے چھوٹے مقاصد کواپنی زندگی کے جینے کی وجہ بنا لیتے ہیں اورگھاٹے میں رہتے ہیں۔دانشمندانہ فعل یہ ہے کہ ہم ان چھوٹے چھوٹے مقاصد کو اپنی زندگی کا حصہ ضرور بنائیں لیکن اپنی زندگی کا کل اثاثہ نہیں۔زندگی میں کرنے کے کام بہت زیادہ ہیں۔اگر آپ کسی ایک شعبہ میں ناکام ہو گئے ہیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کسی بھی دوسرے شعبہ میں غیر معمولی صلا حیت رکھتے ہوں اور قدرت آپ کو اس تک پہنچنے کا راستہ دے رہی ہو۔

وہ لوگ جن کی زندگیوں کے مقصد وسیع ہوتے ہیں انہیں یہ چھوٹی چھوٹی ناکامیاں کچھ نہیں کہتی۔کیوں کہ ان کی منزلیں بڑی ہوتی ہیں اورجن کی منزلیں بڑی ہوتی ہیں انکے دل بھی بڑے ہوتے ہیں۔اوروہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں،مصیبتوں اور پریشانیوں کامقابلہ جواں مردی سے کرتے ہیں اور انہیں عبور کر لیتے ہیں۔اور ایک ہم ہیں کہ سفر کے آغاز میں ہی تاریکیوں اور مصیبتوں کے ہاتھوں شکست کھاتے ہوئے منہ کے بل گر جاتے ہیں اور دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہیں رہتی۔

ہم اس شخص کی طرح ہیں جو ساحل پر کھڑا ہو کرسمندر کی گہرائی کا اندازہ لگاتا ہے۔ہمیں اپنی نظر کو وسیع کرنا ہوگااورساحل سمندر سے سمندر کی گہرائی کا اندازاہ لگانے کی بجائے اس کے اندر جا کر اس کی وسعتوں کو مانپنا ہوگا۔اور اگر بالفرض اس سفر میں ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ بھی ہو پائے تو بھی ہم کچھ غیر معمولی چیزضرور حاصل کرلیں گے۔میرے خیال سے خود کشی کی دوسری اہم وجہ ہماری ناقص تربیت بھی ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں چھوٹے ہوتے ہی ہمیں فرسٹ آنا سکھایا جاتا ہے۔اور معذرت کے ساتھ کہ ہمارے اساتذہ اور والدین بھی یہی سکھاتے ہیں۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم بچے کے ذہن میں آج جو بیج بو رہے ہیں وہ آنے والے وقت میں بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔ظاہری سی بات ہے کہ ہم جو بیج بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔اور پھر جب عملی زندگی کا وقت آتا ہے اور ہمارا وہی بچہ جب اپنے مقاصد کی طرف بڑھتا ہے اور بد قسمتی سے اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہتا ہے تو وہ خودکشی کر لیتا ہے۔

ا ور کیوں نہ کرتا؟ اسے سکھایا ہی یہی گیا تھا کہ جیتنا ہی سب کچھ ہے۔کسی چیز کو حاصل کر لینا ہی کامیابی ہے۔ہارنے والا ذلیل،خوار اور نکما ہے۔اس کی معاشرے میں وہی عزت ہوتی ہے جو ایک طلاق یافتہ عورت کی ہوتی ہے۔تو بس وہ معاشرے میں اپنی ذلت برداشت نہیں کر سکتا تھا اسی لیے اس نے خودکشی کر لی۔کاش کہ اسے سکھایاجاتا کہ دیکھو بیٹا زندگی میں تمہیں کبھی کبھار ہار کا سامنا بھی کرنا پڑے گاتو گھبرانا مت۔

۔۔۔! دیکھو ہار کسی بہت بری چیز کا نام نہیں۔یہ تو سیکھنے کا ایک عمل ہے۔اور تمہیں اس عمل سے گزرتے ہوئے ہی اپنی منزل تک پہنچنا ہے۔تو پھر کیسے ہو سکتا تھا کہ اپنے مقصد میں ناکامی کے بعد وہ خودکشی کی طرف مائل ہوتا۔اور میرے نزدیک ایک تیسری اہم وجہ جو خودکشی کی طرف مائل کرتی ہے وہ ہے اپنی ذات کا کسی دوسرے سے موازنہ کرنا۔ایک انسانی فطرت یہ بھی ہے کہ جب ہم کسی کو بہت زیادہ خوش اور آسائشوں سے بھرپور زندگی گزارتا ہوا پاتے ہیں تو پھر ہم اپنا موازنہ اس سے کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں یہ سب کچھ کیوں میسر نہیں۔

اور ہم اپنی زندگی سے نا امید ہو جاتے ہیں اور یہ نا امیدی پھر ڈپریشن کا سبب بنتی ہے اور پھر ڈپریشن خودکشی کا۔۔اپنی ذات اور زندگی کا کسی سے موازنہ کرنا ایک نہایت ہی بے کار، بے معنی اور لا حاصل عمل ہے۔میری ماں مجھے یہ بات آسان الفاظ میں یوں سمجھایا کرتی ہیں کہ
 بیٹا کسی کی کوٹھی کو دیکھ کر اپنی جھونپڑی نہیں گراتے
تو بہتری اسی میں ہے کہ ہم کسی کی زندگی سے اپنا موازنہ کرنے کی بجائے اپنی خامیوں اور غلطیوں سے سیکھ کر اپنی زندگی کو خوبصورت بنائیں۔

اور ایک بات یہاں ضرور کہنا چاہوں گاکہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ پریشان ہیں اور اس دنیا میں باقی سب خوش ہیں تو یہ محض آپ کی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔دیرینہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر دوسرے شخص کو کسی نہ کسی پریشانی کا سامنا ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ اس پریشانی کا مقابلہ کرنے کا انداز مختلف ہے۔کوئی ماتھے پر بل بھی نہیں پڑنے دیتا اور مسکرا کر ان پریشانیوں کو جھیل جاتا ہے تو کسی کو لگتا ہے کہ ان پریشانیوں سے بچنے کا واحد حل خودکشی ہے۔

اور ایسا بالکل بھی نہیں۔انسان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ ان پریشانیوں، مصیبتوں اور رکاوٹوں کا سامنا جواں مردی سے کرے ورنہ ہوا کے جھونکے اسے ایک کاغذکی طرح کہیں نامعلوم جگہ پر پھینک دیں گے اور اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زندگی سے متعلق اپنے زاویہ نظرکو وسیع کریں اور ساتھ ہی اس بات کو بھی ذہن نشین کر لیں کہ ہر چیز کو حاصل کرلینا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔

ناکامی ہو بھی جائے تو راستے اور بہت کچھ سکھا دیتے ہیں۔اس حوالے سے ایک کارآمد قدم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مینٹل ہیلتھ کے سبجیکٹ کو بطور لازمی مضمون پڑھایا جائے تا کہ نوجوانوں کوتمام ذہنی مسائل سے آگاہی ہو سکے اور وہ ڈپریشن جیسے مرض سے بچ سکیں۔خدا ہمارا حامی و نا صر ہو۔آمین۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :