ٹک ٹاک پر پابندی اور میرا نقطئہ نظر

پیر 12 اکتوبر 2020

Mudassar Aslam

مدثر اسلم

گزشتہ روزٹک ٹاک پر پابندی کی خبر نظر سے گزری تو سوچا کہ اس پر عوام کی رائے سے آگہی لی جائے۔اس حوالے سے تقریبا ملی جلی آراء سننے کو ملی۔میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق ۸۰ سے ۹۰ فیصد لوگ اس فیصلہ کے حق میں تھے جبکہ باقی ۱۰ سے ۱۵ فیصد لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔حقیقت یہ ہے کہ عوام کے تاثرات سننے سے پہلے جو میری رائے تھی، تاثرات سننے کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی وقوع پذ یر نہیں ہوئی۔

عوامی تاثرات سننے کا واحد اور بنیادی مقصد یہ تھا کہ ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈال سکوں جو زیر بحث ہیں۔سب سے پہلے تو میں آپ کو اس مسئلے کی تفصیل سے آگاہ کرنا چاہوں گا اور پھر اس کے متعلق عوامی تاثرات اور اپنی ادنی سی ذاتی رائے کی طرف آؤں گا۔تو اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک طبقہء فکر کی طرف سے متعدد درخواستیں موصول ہوئی کہ ٹک ٹاک ایپ پر پابندی عائد کی جائے جن کا لُب لباب یہ تھا کہ یہ ایپ غیر اخلاقی، غیر مہذب اور غیر مناسب سرگرمیوں کو پروموٹ کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

ان درخواستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی اے کی طرف سے ۲۰ جولائی ۲۰۲۰ کو ٹک ٹاک کی انتظامیہ کو یہ تنبیہ کی گئی کہ وہ غیر اخلاقی اور غیر مناسب مواد کی روک تھام کے لیے مئوثر منصوبہ بندی کریں۔لیکن اچھا خاصا وقت ملنے کے باوجود ٹک ٹاک انتظامیہ اس حوالے سے غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقدامات کرنے میں ناکام رہی اور نتیجے کے طور پر ۹ اکتوبر ۲۰۲۰ کو پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی گئی۔

آئیے اب عوامی تاثرات کا جائزہ لیتے ہیں ۔سب سے پہلے ان آراء کو حقیقت کی چھاننی میں سے گزارتے ہیں جو اس فیصلہ کی حمایت میں ہیں۔تو جو لوگ اس فیصلہ کی حمایت میں ہیں ان کے دلائل واضح اور ناقابل تردید ہیں ۔ان کا یہ کہنا ہے کہ ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی اور غیر مناسب مواد کی تشہیر کی جاتی ہے جو کسی بھی طرح ایک قابل قبول عمل نہیں ہے۔اس لیے اس کی بر وقت روک تھام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔

تقریبا ۸۵ سے ۹۰ فیصد لوگ یہی رائے رکھتے ہیں۔لیکن یہاں میرے ذہن میں ایک ایسا سوال آتا ہے جو مجھے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے اور وہ یہ کہ ان ٹک ٹاکرز کے فالوورز کی تعداد ملین میں تھی تو وہ کون لوگ تھے جنہوں نے انہیں فالو کیا ہوا تھا ؟ کیا وہ مریخ سے آئے تھے؟ بالکل بھی نہیں۔بلکہ وہ بھی اسی سیارے سے تعلق رکھنے والے تھے تو پتہ یہ چلا کہ بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو انہیں دیکھنا چاہتے ہیں ۔

تو ہم اس بات کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان غیر اخلاقی سر گرمیوں کی تشہیر کرنے والوں کو پروموٹ کر رہیں۔تو ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کن لوگوں کو پروموٹ کر رہے ہیں ۔ان لوگوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ انہیں کیا سوچنا چاہیے۔ میں چند مچھلیوں کی وجہ سے پورے تالاب کو خراب کہنے کا حامی نہیں ہوں۔

تو بہتر یہی ہو گا کہ ہم یہاں پر ایک منصفانہ تقسیم عمل میں لائیں تا کہ اس معاملے کی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد مل سکے اور ہم بہتر انداز میں معاملہ کی حقیقت کو جان سکیں۔تو اصل میں یہاں پر دو کیٹیگریز بنتی ہیں۔ایک کیٹیگری میں وہ لوگ آتے ہیں جو اپنے ٹیلنٹ کو ایک مثبت انداز میں پیش کرتے رہے اور ناظرین و سامعین سے داد وصول کرتے رہے اور فالورز کی تعداد بڑھاتے رہے ۔

لیکن ان کی تعداد نسبتاخاصی کم رہی۔اور دوسری طرف وہ لوگ آتے ہیں جنہوں نے فحاشی اورغیر اخلاقی مواد کی تشہیر سے شہرت پائی اور ان کی تعداد نسبتا بہت زیادہ ہے۔میں اس نقطہ کی مزیدنشان دہی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیوں کہ اہل علم اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔میں یہ بتاتا چلوں کہ یہاں پر یہ تقسیم کرنے کا بنیادی مقصد اس حقیقت پسندانہ سوچ کو فروغ دینا ہے کہ جو غلط ہے وہ غلط ہے اور جو صحیح ہے وہ صحیح ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا آج ایک بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے جس تک ہر عمر کے لوگ بشمول بچے آسانی سے رسائی پاچکے ہیں۔تو اس حوالے سے سوشل میڈیا کے صارفین پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے استعمال میں احتیاط برتیں اور ایسا ویسا کوئی کام نہ کریں کہ جس کے نتائج منفی ہوں۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ نوجوان جو قوم کے معمار ہیں اور جن کا کردار ملک وملت کے مقدر کا فیصلہ کرتا ہے، آج فالوورز کے چکر میں اخلاقی حدوں کو پار کرتے ہوئے انتہائی نا مناسب،نازیبا اور غیر اخلاقی مواد کی تشہیر کر رہے ہیں ۔

اور پھر ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ نوجوان اپنا قیمتی وقت تو ضائع کر ہی رہے ہیں،ساتھ ہی ساتھ ہماری آنے والی نئی نسل کی بھی غلط تربیت سازی کر رہے ہیں۔تو آپ مجھے خود ہی ایمان داری سے بتائیں کہ کیا ہماری نئی نسل اس غیر اخلاقی اور نازیبا مواد کو دیکھنے کے بعد ایک مہذب شہری بن پائے گی؟ یقیننا نہیں۔۔!!! ہم آج ان کے ذہنوں میں جس چیز کا بیج بو رہے ہیں کل وہی کاٹیں گے۔

ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ کیا ہمارے آباؤاجداد نے اس طرح ہماری تربیت کی تھی؟ کیا یہ ہی قائد کا پاکستان ہے؟کیا یہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟ کیا ہماری تہذیب وثقافت ہمیں یہی سکھاتی ہے؟ تو آج مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم یہ سب کچھ پس پشت ڈال چکے ہیں۔ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کسی غلط کام کو محض اسی لیے صحیح کا درجہ نہیں دیا جا سکتا کہ اُ سے زیادہ لوگ کر رہے ہیں۔

جو غلط ہوتا ہے وہ ہمیشہ غلط ہی رہتا ہے وہ صحیح نہیں ہو سکتا۔میں اپنے اس کالم کے توسط سے اُن عناصر کی پُر زور مذمت کرتا ہوں کہ جو ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے نوجوان نسل میں غیر اخلاقی اور نازیبا سرگرمیوں کو پروموٹ کر رہے ہیں اور ان عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے اُٹھائے گئے ہر قدم کا خیر مقدم کرتا اور پوری تائید کرتا ہوں۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلہء مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ،بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
اگر میں دوسری ۱۰ سے ۱۵ فیصد لوگوں کی رائے کو حقیقت کے پلڑے میں نہ تولوں تو یہ ناانصافی ہو گی۔

کیوں کہ میں تصویر کے دونوں رُخ دکھانے کا قائل ہوں۔تو دوسرے لوگ جو اس فیصلہ کے خلاف ہیں ان کا مئوقف یہ ہے کہ ٹک ٹاک پر پابندی لگانے سے قابلیت کے حامل افراد کاٹیلنٹ دب کر رہ جائے گا۔تو اس حوالے سے میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو لوگ واقعتا قابلیت رکھتے ہیں اور کسی بھی حوالے سے ملک وملت کی حقیقی معنوں میں خدمت کرسکتے ہیں تو وہ یہ کام یوُ ٹیوب پر بھی کر سکتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسا کر بھی رہے ہیں۔

جو لوگ حقیقی منزلوں کے مسافر ہوتے ہیں ان کے لیے راہوں کی کمی نہیں ہوتی۔راہیں ان کا استقبال کرتی ہیں۔اس کے علاوہ ان لوگوں کی طرف سے ایک مئوقف یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ جو بے روزگار لوگ ٹک ٹاک کے ذریعے پیسے کما رہے تھے تو اب وہ کیا کریں گے۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ ٹک ٹاک کے لاؤنچ سے پہلے بھوکے مر رہے تھے؟ یقیننانہیں۔۔تو انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ ایسے بہت سے دوسرے ذرائع بھی ہیں جہاں وہ اپنی سکلز اور ٹیلنٹ کا استعمال کر کے با آسانی پیسے کما سکتے ہیں۔

اور خدانے رزق کا وعدہ کیا ہے۔لیکن انسان کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ مثبت ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنی کوشش جاری رکھے۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ قدرت نے انسان کو ان گنت وسائل سے نوازا ہے۔اگر وہ اپنی قسمت کا رونا رونے کی بجائے ان وسائل کا مثبت طریقے سے استعمال کرے تو اُسے وہ سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے جس کی وہ خواہش کرتا ہے۔لیکن اپنی جیب بھرنے کے لیے غیر اخلاقی وغیر مہذ ب سرگرمیوں کا سہارا لینا کسی بھی طرح ایک قابل تحسین عمل نہیں ہے۔

۔
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
تو خلاصہ کلام کے طور پر یہی کہنا چاہوں گا کہ غیر اخلاقی و غیرمہذب سر گرمیوں کو کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پروموٹ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ہمارے ملک اور ہماری نئی نسل کے لیے زہر قاتل ہے۔دوسری طرف وہ نوجوان جو حقیقی طور پر ٹیلنٹ رکھتے ہیں اور کسی بھی لحاظ سے ملک وملت کے لیے باعث فخر ثابت ہو سکتے ہیں اُن کے لیے مناسب مواقع کی فراہمی ضروری ہے۔

خدا ہمیں فہم وفراست عطا کرے اور ہم صحیح اور غلط کے فرق کو سمجھیں اور اپنی خدادادصلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے وقار میں اضافہ کا سبب بن سکیں۔آمین۔
مندرجہ بالا کالم میں لکھے گئے تمام الفاظ بندہ کی ذاتی رائے کی بنیاد پر ہیں۔قارئین کو کسی بھی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :