تخلیقی ذہانت کے خشک چشمے

ہفتہ 19 ستمبر 2020

Mudassar Aslam

مدثر اسلم

تخلیقی ذہانت سے مراد خدا کی طرف سے انسان کو دی گئی عقل کی وہ لازوال نعمت ہے کہ جس کی بنا پر وہ خیروشرمیں تمیز کر سکتا ہے اور قدرت کے سر بستہ رازوں کو بے نقاب کرتا ہے اور عنا صر فطرت کو مسخر کر کے اپنی زندگی کے بنیادی تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے۔یہی وہ نعمت ہے کہ جس کی بنا پر اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ۔تخلیقی ذہانت ہی کی بدولت ابتدائے آ فرینش سے لے کر اب تک انسان نے تسخیر فطرت کے کٹھن مراحل کو خوش اسلوبی سے طے کیا ۔

غاروں میں رہنے والے انسان نے رُوئی بنائی اور پھر رُوئی کو کات کر کپڑے بنائے اور یوں وہ اپنے معیار زندگی کو بلند کرتا گیا اور آج اس کے قدموں کی گونج مریخ پر سنائی دے رہی ہے۔اور خشک چشمے کا لفظ بے مقصدیت ، بے راہ روی، بے وقعتی اور ناکارگی کے مفا ہیم کو بدرجہ اتم بیان کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

زیر نظر عنوان ان لوگوں کی منظر کشی کر رہا ہے جو دریا کے پاس رہ کر بھی تشنہ لب رہتے ہیں۔

یعنی جن کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں ہوتا ۔یہ ان نوجوانوں کی عکاسی کر رہا ہے کہ جن کی تخلیقی صلاحیتوں، نئے ارادوں اور انقلابی سوچوں کو پیدا ہوتے ہی زمانہ جاہلیت کی لڑکی کی طرح زندہ در گور کر دیا جاتا ہے۔اس کی مثال بالکل ایک پودے کی سی ہے۔ پودے کو نشوونما پانے کے لیے مناسب روشنی، ہوا اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر پودے کو مندرجہ بالا چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی نہ ملے تو وہ نشوونما نہیں پا سکتا ۔

نوجوان بھی بالکل اس پودے کی مانند ہیں جو پھل اور پھول یعنی کارآمد نتائج دینے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں مگر اس کے لیے ان کو منا سب ماحول نہیں مل پاتاجس کی وجہ سے انکی تخلیقی صلاحیتیں ایک پودے کی طرح سوکھ جاتی ہیں اور انہیں گھن لگ جاتا ہے۔آئیے ان عوامل کا تفصیلی جا ئزہ لیں جو ان کی تخلیقی ذہانت پر اثر انداز ہوتے ہیں تا کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا محاسبہ کر کے ان کا ازالہ کر سکیں۔


تخلیقی ذہانت پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں سے سب سے اہم تعلیم ہے ۔ تعلیم تخلیقی ذہانت کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔یہ تعلیم ہی ہے کہ جس کے کرشمے سے کائنات کی پہنائیوں، زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی وسعتوں کی حقیقت انسان پر عیاں ہوتی ہے۔اور اسی تعلیم کے حصول کے لیے اپنا یا جانے والا نظام انسان کے نظریات، افکاروخیالات اور اسکی خداداد صلاحیتوں کی ترویج و ترقی میں ممدودو معاون ثابت ہوتا ہے۔

لیکن بد قسمتی سے ہمارا نظام تعلیم ناقص اور خستہ حال ہے۔ہمارے نظام تعلیم میں ایسی خامیاں کثرت سے موجود ہیں کہ جو نوجوان نسل کو مطلوبہ قابلیت کا حامل کبھی نہیں ہونے دیں گی۔سب سے اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم کے مطابق یادداشت ہی کسی بھی طالب علم کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔اگر کسی طالب علم کی یادداشت اچھی ہے اور وہ کسی کتاب کو لفظ بہ لفظ رٹہ لگا سکتا ہے تو اسکی کامیابی یقینی ہے اور اسے امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا جاتا ہے اور اس کے بر عکس اگر کوئی طالب علم کتاب سے ہٹ کر لکھنے کی ناکام کوشش کرتا ہے تو اسکا نتیجہ اسے کم نمبروں کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

اب آپ خود ہی بتا ئیں کہ ایسے میں عقل اور شعور کہاں جائے؟ اور اوپر سے ایک ستم یہ کہ طلبا کو اپنے سال بھر کا وسیع علم محض تین گھنٹوں کے قلیل وقت میں پرچے پر منتقل کرنا ہوتا ہے۔جو دراصل اس بات کا امتحان نہیں کہ کوئی طالب علم کس قدر تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہے بلکہ اس چیز کا امتحان ہے کہ کون کتنا تیز لکھ سکتا ہے۔
ایک اور ناقص نظام جو اساتذہ کی طرف سے متعارف کروایا گیا ہے وہ ہے نوٹس سسٹم۔

وہ کتابیں جو وسیع علم اور عظیم سائنسدانوں کے بیش بہا تجربات کا منبع تھی۔آج انہیں بے اعتنائی سے پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور انکی جگہ ناقص المعیار نوٹسوں نے لے لی ہے۔یعنی پوری کتاب پڑھنے کی بجائے اساتذہ چند اہم سوالات کے نوٹس بنا کر طلبا کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں اور شومئی قسمت کہ ہمارا نظام تعلیم بھی ایسا ہے کہ وہ طلباان چند اہم سوالات کو پڑھ کر با آسانی پاس ہو جاتے ہیں۔

یعنی تعلیم کا مقصد صرف پاس ہونے تک ہی محدود رہ گیا ہے۔تو کچھ سوال میری زبان حال سے بے ساختہ جاری ہو جاتے ہیں کہ کیایہ تعلیم ان کی تخلیقی ذہانت کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہو گی؟ کیا اس تعلیم کے حصول کے بعد وہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہوں گے؟ یقیننانہیں۔۔۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسے نظام تعلیم سے رٹو طوطے تو پیدا کیے جا سکتے ہیں لیکن لیڈر نہیں۔


ئئئبڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس حوالے سے ایک توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں لیبارٹریوں اور تحقیقی اداروں کی قلت ہے جس کی وجہ سے طلبا جو کچھ تھیوری میں پڑھتے ہیں اسے عملاسمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔اور اس طرح ان کا علم محض کتابوں تک ہی مقیدہوکر رہ جاتا ہے اور وہ تخلیقی صلاحیتیں جو تجربات و مشاہدا ت سے پروان چڑھنا تھی، کسی کونے میں دب کر رہ جاتی ہیں۔


سائنسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ماحول بھی کسی بھی شخص کی تخلیقی ذہانت پر براہ راست اثر انداز ہونے والاایک اہم پہلو ہے۔اگر ماحول حوصلہ افزا ہو تو تخلیقی ذہانت بھی خود بخود پروان چڑھتی ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں طلبا کو غیر موزوں ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔اگر تعلیمی ماحول کی بات کی جائے توطلبا کو سخت قسم کے ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں کوئی طالب علم سوال کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا ۔

متفرق اور تخلیقی ذہنیت رکھنے والوں کی حو صلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ صرف کتاب پر لکھے گئے اور استاد کے بتائے گئے جواب کو درستگی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔اس امر سے طلبا کی تخلیقی ذہانت نا پید ہوجاتی ہے۔کیوں کہ یہ تو صرف ان باتوں کی مشق ہے جو کتاب پر لکھی ہو ئی ہیں اور اس سے کتاب پر غیر تحریر شدہ نئے خیالات اور غیر مطلق تصورات کا مخفی سلسلہ ان پر عیاں نہیں ہوتا ۔

اور اگر معاشرتی ماحول کی بات کی جائے تو وہ بھی تخلیقی ذہانت کے لیے زہر قاتل ہے۔بدقسمتی سے معاشرے میں ایک رجحان پایا جاتا ہے کہ صرف میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبا ہی ذہین ہیں اور باقی شعبوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کو کم عقل اور نالائق تصور کیا جاتا ہے۔معاشرے میں پائی جانے والی اس غلط اندیشی کی وجہ سے نوجوان احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تخلیقی ذہانت دب کر رہ جاتی ہے۔


خلاصہ کلام کے طور پر کہنا چاہوں گاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام تعلیم میں منا سب تبدیلیاں کی جا ئیں اور ایک ایسے نظام کی تشکیل کی جائے جو طلبا کی یاد داشت کی بجائے ان کی تخلیقی ذہانت کو پرکھنے میں معاون ثابت ہو اور ایک ایسے امتحانی نظام کو متعارف کروایا جائے جس کے ذریعے ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور علم کا جائزہ لیا جا سکے۔رٹہ سسٹم کی حوصلہ شکنی کی جائے اور طلبا کو اپنے ذاتی خیالات و مشا ہدات کی بنا پر کسی بھی سوال کا جواب دینے کی آزادی دی جائے۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ طلبا کو تعلیم کے صحیح معنی و مفہوم سے آگہی دی جائے کیوں کہ مقصد اور عمل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔تو یہ ضروری ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ تعلیم صرف امتحان پاس کرنے کا نام نہیں ۔بلکہ اس کے معنی و مفہوم اس سے کہیں ذیادہ وسیع اور عمیق ہیں ۔ تعلیم تو کردار سازی کا نام ہے۔ تعلیم تو خودی کو پہچاننے اور اپنی پنہاں صلاحیتوں سے آگہی کا نام ہے۔

تعلیم تو وہ ہے کہ جس کو حاصل کرنے کے بعد وہ ملک و قوم کی خدمت کا اہم فریضہ احسن انداز میں سر انجام دینے کے قابل ہو جا ئیں گے۔جب یہ حقیقی تصورات ان کے ذہن میں نقش ہوں گے تو وہ بہتر انداز میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں گے۔اس حوالے سے یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس طرح ماحول سازی کی جائے کہ طلبا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں اُجاگرہو سکیں ۔

کتابوں پر درج اسباق کی مشق کروانے کے ساتھ ساتھ انہیں آزادانہ سوچ کاشعار اپنانے کی ترغیب دی جائے۔کیوں کہ آزادانہ اور تنقیدی سوچ ہی ان کی تخلیقی ذہانت کو پروان چڑھانے میں معاون ہو گی۔اس ضمن میں ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ نصابی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سر گرمیوں کا انعقاد بھی کیا جائے تا کہ طلبا اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے شناسائی حاصل کرسکیں ۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ معاشرے میں تعلیم کے مختلف شعبوں سے متعلق پائی جانے والی متعصبانہ سوچ کا قلع قمع کیا جائے۔اور طلباکی تخلیقی ذہانت کو اپنے بنائے ہوئے کھوکھلے معیار پر پرکھنے کی بجائے انہیں اپنی رغبت کے عین مطابق شعبہ کا انتخاب کرنے کی اجازت دی جائے۔اس طرح وہ زیادہ احسن انداز میں اپنی تخلیقی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و ملت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک ڈاکٹر آرٹسٹ نہیں بن سکتا اور ایک آرٹسٹ ڈاکٹر نہیں بن سکتا تو خدارا اس دیرینہ حقیقت کو تسلیم کریں اور اپنے بچے کے لیے علم و حکمت کے دروازے بند کرنے کی بجائے اسے اپنی پسند کی راہ کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی منزل تک رسائی پانے کا موقع دیں۔اور ایک ایسے معاشرتی ماحول کے قیام کو یقینی بنایا جائے جہاں بغیر کسی امتیاز کے تمام نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

کیوں کہ اگر انہیں حوصلہ افزا ماحول ملے گا تو ہی وہ با حسن وجوہ اپنی تخلیقی ذہانت کے چشموں سے ملک و قوم کی زرخیز کھیتی کو سیراب کر سکیں گے۔خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین۔
میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ مندرجہ بالا مضمون میں لکھے گئے تمام الفاظ بندہ کے ذاتی افکار وخیالات پرمبنی ہیں۔کسی بھی قسم کے مواد یا تحریر سے مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔شکریہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :