زندگی، ایک ان بوجھی پہیلی ہو جیسے۔۔۔۔

جمعہ 9 اپریل 2021

Mudassar Aslam

مدثر اسلم

وہ سیڑھیوں کی چڑھائی چڑھتا ہوا اپنے کمرے پر آپہنچا ۔وہ پسینے میں شرابور تھا ۔تھکن کے آثار اُس کے چہرے پر نمایاں تھے۔اُس کا سانس پُھولا ہواتھا۔اُس کی ہمت جواب دے چُکی تھی۔پھر اُس نے کمرے کا تالا کھولنے کی غرض سے اپنی جیب سے چابی تلاش کی۔اور پھر چابیوں کے گُچھے میں لٹکی ہوئی تمام چابیاں باری باری آزما کر تالا کھولنے کی کوشش کی مگر بے سود۔

جلد ہی اُسے احساس ہوگیا کہ اُس تالے کی مطلوبہ چابی اُس گُچھے میں موجود نہ تھی۔اب اُس کے پاس دو راستے تھے۔ایک رستہ یہ کہ وہ واپس جاتا اور چابی تلاش کرتا اور دوسرا یہ کہ تالا توڑتا۔تو اُس نے تالا توڑ ڈالا۔چونکہ اُسے یہی آسان لگا۔ایک لمحے کے لیے سوچیے گا کہ ہماری کہانی بھی بالکل اُس شخص جیسی ہی ہے۔

(جاری ہے)

جب زندگی کے نشیب و فراز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہمارا سامنا مشکلات و مصائب کے دروازے سے ہوتا ہے۔

تو ہمارا سانس پھولا ہوا ہوتاہے۔اور بالکل اُس شخص کی طرح جس کے پاس مطلوبہ چابی کے علاوہ چابیوں کا گُچھا موجود ہوتا ہے۔اُسی طرح ہمارے پاس بھی مثبت سوچ کی اُس ایک چابی کے علاوہ غیر ضروری،غلط انگیز اور گمراہ کن خیالات کا ایک گُچھا موجود ہوتا ہے جو موجودہ مسئلے کا حل نکالنے میں کسی بھی طرح ہمارے لیے ممدودو معاون ثابت نہیں ہوتا۔تو پھر ہم بھی اُس تالا توڑنے والے کم ہمت اور تساہل پسند شخص کی طرح خودکشی کا سہارا لیتے ہیں اور بظاہر مشکلات و مصائب کے دروازے کو توڑ کر نکل جاتے ہیں لیکن حقیقتا ہم ہار جاتے ہیں۔

حالاں کہ اُس شخص کی طرح ہمارے پاس بھی دوسرآپشن موجو د رہتا ہے لیکن ہم وقتی آسانی کو تر جیح دیتے ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ہم زندگی کے بارے میں خاصے مغالطے کا شکار ہیں۔درحقیقت ہم زندگی کو ایک فلم کی طرح دیکھتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ فلم میں ایک ہیرو ہوتا ہے۔وہ اپنی منزل کو پانے کے لیے تگ ودو کرتا ہے۔

اُسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اُس کا یہ سفر خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔اس سفر میں اُس کا سامنا ایک شخص سے ہوتا ہے جو اُسکی راہ میں مشکلا ت پیدا کرتا ہے۔اُس کی راہ میں رُکاوٹیں بڑھاتا ہے اور اُسکی منزل تک رسائی مشکل بناتا ہے۔اُسے ولن کا نام دیا جاتا ہے۔لیکن وہ ہیرو (جسے بہت طاقتور دکھایا جاتا ہے) جلد ہی اُس ولن کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہیرو اپنی منزل کو پا لیتا ہے اور اُسے وہ سب مل جاتا ہے جس کی وہ خواہش رکھتا تھا۔

ہم بھی اپنی زندگی کو اُس فلم کی طرح دیکھتے ہیں۔ہم بھی اپنے خوابوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔لیکن اس سفر میں ہمارا ولن مشکلات ومصائب اور غم ہوتا ہے۔اور ہم اس بات کے متمنی ہوتے ہیں کہ جلد از جلد اس ولن سے نجات حاصل کریں اور ہماری زندگی خوشیوں سے بھر جائے۔لیکن عالی جاہ! حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔عملی زندگی ، فلمی زندگی سے یکسر مختلف ہے۔

یہاں سب کچھ اتنا آسان نہیں ہوتا۔یہاں ایسے نہیں ہوتا کہ ایک ہی بار مشکلات آئیں اور ختم ہوجائیں اور زندگی خوشیوں سے بھر جائے۔اس کے برعکس زندگی قدم قدم پر امتحان لیتی ہے اور آزمائشوں کا یہ لا متناہی سلسلہ مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔کبھی زندگی ایسے مقام پر ہمارا امتحان لیتی ہے کہ جب قدم ڈگمگا رہے ہوتے ہیں تو پھر ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔

زندگی کبھی ہمیں ہموار رستے دے دیتی ہے اور ہم اُنہیں آسانی سے عبور کر لیتے ہیں تو کبھی منزل کے عین قریب جا کر ہمارا سامنا دُشوار اور کٹھن رستوں سے کروا دیتی ہے ۔خُدا بھی اسی لمحے اپنے بندے کو آزماتا ہے۔کسی کو اکیلے چلنے کا حوصلہ دے دیتا ہے تو کسی کو ہمسفر دے دیتا ہے جو ان کٹھن راستوں میں اُس کے ساتھ قدم ملا کر چلتا ہے۔مختصرا عملی زندگی اور فلمی زندگی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ یہاں فلمی دنیا کے بر عکس مشکلات و مصائب کا سلسلہ یکسر ختم نہیں ہوتا۔

ایسے میں زندگی ایک ان بوجھی پہیلی کی سی لگ رہی ہے۔ ایک ایسی پہیلی کہ جس کی حقیقت کو ہم نے کبھی کما حقہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔زند گی کے بنیادی معنی و مفہوم سے روشناس ہونا ہماری بنیادی ضرورت ہے۔جب ہم اس کی حقیقت کو جان لیں گے تو ہمارے مسائل کی بہت سی گتھیاں سُلجھ جائیں گی۔ زندگی در حقیقت غموں اور خوشیوں کی آنکھ مچولی کا نام ہے۔خوشیاں اور غم زندگی کا حصہ ہیں، پوری زندگی نہیں ہیں۔

اگر خوشیا ں میسر آتی ہیں تو اُن سے ضرور لطف اندوز ہوں لیکن اس بات کی توقع نہ کریں کہ یہ ہمیشہ رہیں گی۔بلکہ اس بات کو ذہن نشین رکھنا ہے کہ یہ صرف زندگی کا حصہ ہیں۔اور بالکل اسی طرح اگر غموں کے بادل چھانے لگیں تو افسردہ ہو کر ہمت ہار کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے۔کیوں کہ یہ بھی زندگی کا حصہ ہیں، پوری زندگی نہیں ہیں۔یہی وہ فلسفہ ہے جس کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے اور اسی فلسفہ کو اپنے اس کالم کے توسط سے آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

اس فلسفے کو آپ نے اپنے زندگی میں بغیر ناغے کے استعمال کرنا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے آپ ڈاکٹر کی ہدایت کردہ ادویات استعمال کرتے ہیں۔ضرور افاقہ ہوگا۔اور میں یہاں اس بات کا اعتراف کرنا چاہوں گا کہ یہ قبل الذکر فلسفہ میرا ذاتی نہیں ہے بلکہ یہ فلسفہ مجھے اُردو ادب کے ایک نامور اور بلند پایہ مصنف سر اشفاق احمد صاحب سے جاننے کو ملا۔میرا یہ ماننا ہے کہ ہمیں ان جیسے بابوں کو سننا چاہیے ۔

یہ کسی دوا کے بغیر اپنی بیش قیمت باتوں سے ہی ہمارے دیرینہ مسائل کا حل نکال دیتے ہیں۔خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی۔تو یہ زندگی کا وہ مفہوم ہے جو ہمارے لیے جاننا بے حد ضروری تھا۔اسی طرح زندگی کی پیچیدگیوں کو آسان بنانے کے لیے ہمیں زندگی سے جُڑی چند حقیقتوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔مثلاہم یہ بات فرض کیے بیٹھے ہیں کہ صرف ہمیں ہی مسائل کا سامنا ہے۔

اور ہمارے اردگرد بسنے والے وہ لوگ جو آسائشوں سے بھر پور زندگی گزار رہے ہیں،انہیں کسی بھی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں ہے۔لیکن یہ بات کسی بھی طور درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مشکلات ومصائب کا سامنا ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے۔صرف اُن کی نوعیت یا قسم مختلف ہوتی ہے۔مثلا کوئی غریب فاقے سے مر رہا ہے تو کسی امیر کو کسی لاعلاج مرض کا سامنا ہے۔مشکلات ومصائب کا یہ قانون ہر شخص پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔

دنیا کے کسی بھی شخص کو اس سے استثنی حاصل نہیں ہے۔ہم انسان بڑے ناشکرے ہیں۔ہم غموں کی گنتی کرتے ہیں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں۔اگر ہم قناعت پسندی کی روش کو اختیار کر لیں تو زندگی یقیننا آسان ہوسکتی ہے۔خلاصئہ کلام یہ کہ ہمیں خوشیوں اور غموں کو زندگی کا ایک لازمی جزو تسلیم کرنا ہے اور اسی کے مطابق اپنے عمل کو ڈھالنا ہے۔یاد رہے کہ میں نے مندرجہ بالا عبارت میں جزو کا لفظ استعمال کیا ہے کُل کا نہیں۔

ڈپریشن جیسے مسائل تب ہی پیدا ہوتے ہیں جب ہم غموں کو زندگی کا حصہ نہیں بلکہ پوری زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں۔اور یہ رویہ ہمیں نااُمیدی کی طرف لے جاتا ہے اور ہم زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز نہیں ہوپاتے۔بالکل اُس بچے کی طرح جو ایک کھلونا لینے پر ہی بضد ہوتا ہے اور اگر اُسے وہ نہ ملے تو دیگر انواع و اقسام کی رنگینیوں سے بھی منہ پھیر لیتا ہے۔

اس ضمن میں ایک اور بات جو ہمیں ذہن نشین کرنی ہے وہ یہ کہ ہم زندگی سے مشکلات اور غموں کا یکسر خاتمہ نہیں کرسکتے ۔یہ زندگی کا حصہ ہیں اور ان کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔۔لیکن ایک چیز جو ہمارے ہاتھ میں ہے وہ ہے ان سے نپٹنے کا رویہ۔۔اگر ہم اُس رویے کو بدل لیں تو یہ مشکلات بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔جیسا کہ اسلام ہمیں مشکلا ت آنے پر صبر کا درس دیتا ہے۔

۔اور ہاں یہاں مجھے اس بات کاضرور اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ سب باتیں کہنے کو بہت آسان لگ رہی ہیں لیکن جب انسان عملی زندگی کے اکھاڑے میں قدم رکھتا ہے تو ان سب باتوں کو اپنانا اور صبر کا دامن تھامے رکھنا اس قدر آسان نہیں ہے۔
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
لیکن میرا بنیادی مقصد زندگی کے متعلق آپ کی طرز فکر کو بدلنا تھا اور مجھے پوری اُمید ہے کہ میں اپنی اس کوشش میں کسی قدر کامیاب ہوپایا ہوں۔اوریقیننا اس طرز فکر کو بدل کر ہی ہم زندگی کی اس ان بوجھی پہیلی کو بوجھ پائیں گے ۔خدا سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اس فلسفہ ء زندگی کو اپنانے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے اور ہمیں آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :