
سفرمدینہ،ماں اورجنت
جمعرات 26 فروری 2015

محمد اکرم اعوان
(جاری ہے)
ایک قصہ جس میں عام انسان کوماں کی خدمت ،اطاعت ، فرمانبرداری کے بدلہ میں اللہ عزوجل نے جنت میں وقت کے نبی کا ساتھ عطاء فرمایا۔
قصاب جب گھر پہنچاتواُس نے گوشت کو پکایا،پھرروٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کئے اورپھر دوسرے کمرے میں چلاگیا۔جہاں ایک کمزور بڑھیا چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔قصاب نے انتہائی ادب سے اُسے سہارا دے کراُٹھایااورپھر بڑے پیاراوراحترام سے ایک ایک لقمہ منہ میں دیتا رہا۔جب اُس نے کھانا تمام کیا تو بڑھیا کا منہ صاف کیا۔بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن کرقصائی مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہرآگیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سب کچھ دیکھ رہے تھے۔آپ علیہ السلام نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تومسکرا دیا؟
قصاب بولا اے اجنبی! یہ عورت میری ماں ہے۔ گھر پرآنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں۔یہ خوش ہوکر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھے۔ جس پر میں مسکرادیتا ہوں کہ بھلامیں کہاں اور موسیٰ کلیم اللہ کہاں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کے قدموں میں جنت ہے،یعنی ماں کی خدمت اور فرمانبرداری پراللہ راضی ہوتا ہے۔جنت اللہ کی رضا کانام اور انعام ہے۔ماں اللہ کی ایسی خوبصورت عطاء ہے کہ اُس کی ہرسانس اپنی اولادکے لئے دعا ہے۔ ماں ایسی خوبصورت ہستی ہے، وہ خودچاہے کسی بھی حال میں ہو، اپنے پرآنے والی ہرتکلیف،مصیبت اور آزمائش تو برداشت کرلے گی،مگر اپنی اولاد کی ذرا سی تکلیف اس سے دیکھی نہیں جاسکتی۔حصول ِمعاش کی خاطراپنے گھر،اپنے وطن سے دور رہتے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا۔میری طرح دیگردوست جواپنے گھراوروطن سے دور ہیں، اس تجربہ سے گزرے ہوں گے ۔کہ ماں نے فون پرآپ کی آواز سُن کرکہا ،بیٹاخیریت توہے؟تیری آوازبدلی بدلی سی ہے۔ میرادل رات سے بے چین ہے۔تمھیں کیا ہوا۔ آپ اپنی ماں کو پریشانی سے بچانے کی خاطراپنی تکلیف کا ذکر کرنے سے گریزکرتے ہیں،مگر ماں کہتی ہے نہیں !توضرورمجھ سے کچھ چھپارہا ہے۔بیٹا اللہ خیر کرے میرا دل کہتا ہے کہ تم کسی مشکل اور تکلیف میں ہو۔میرے بچے تم ٹھیک توہو؟کہیں بیمارتو نہیں؟بتاؤناں کیا مسئلہ ہے؟جدیدتحقیق کے بعدسائنسدان بھی یہ کہتے ہیں کہ ماں کی آواز میں وہ اثر ہے جس سے انسان کوسکون ملتا ہے،چاہے ماں کی آوازآپ سات سمندر پار فون کے ذریعہء ہی کیوں نہ سُنیں ،یہ آواز آپ کو سکون کی دولت سے مالا مال کردیتی ہے۔
ایک بارسفرمدینہ کے دوران اپنی آنکھوں سے ربِ کریم کے تحفہء عظیم ماں اور بیٹے کے خلوص ومحبت سے بھرے جذبات کامشاہدہ کیا۔ایک عرصہ بیت گیامگرآج بھی وہ منظرمیری آنکھوں کے سامنے ہے۔میرادوست بہت خوش اورجلدی میں تھا۔اُس نے نہا دھو کر اچھالباس پہنااورکہاچلوآؤ آج مدینہ اورجنت ایک ساتھ دیکھتے ہیں۔پاکستان سے آئی میرے دوست کی ماں عمرہ کی ادائیگی کے بعداپنے گروپ کے ساتھ مدینہ جارہی تھی ۔ہمیں اُن سے پہلے مدینہ پہنچناتھا۔روضہ پاک کی زیارت کے بعدماں جی سے ملاقات ہوئی۔میرے دوست نے میری خاموشی اور حیرانی کو دیکھ کرشایدخودی اندازہ کرلیااور پھر میرے قریب آکرکہنے لگا،آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہو۔میں بھی یہی سوچتاتھا کہ اب اس حال میں ماں جی کے لئے سفرکی صعوبتیں برداشت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ غربت اورحالات کے سبب اس سے پہلے یہ ممکن ہی نہیں تھا اور پھرسب سے بڑھ کریہ کہ بلاوا تواللہ کی طرف سے ہے،وہ جسے، جب اور جس حال میں چاہے بلانے پرقادر ہے۔کتنے ہی دولت اورصحتمند انسان کرہ ارض پر موجود ہیں،مگر یہاں صرف وہی آتا ہے جسے اللہ کی طرف سے بلاوا آئے۔حالات اورمعذوری تو انسان کے لئے ہے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ سچی طلب ہو تو بلاوا ضرور آتاہے اور پھر بلانے والا کسی کو بے کس اور بے سہارا توہرگزنہیں چھوڑتا۔تھوڑے وقفہ کے بعدپھرگویا ہوا کہ ماں جی کے بہن بھائی اور سب رشتہ داروں کو اللہ عزوجل نے اپنے اور اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے گھر کی زیارت عطاء فرمائی۔ میں نے جب سے ہوش سنمبھالا،ان کی زبان پر ایک ہی خواہش اوردل میں ایک ہی آرزو تھی زیارت ِ مدینہ۔ تمام دُکھوں،تکلیفوں،بے پناہ مصیبتوں اور صدموں کو جھیلتے ہوئے مجھے پالا مگرآج تک اس ہستی نے کبھی مجھ سے کوئی فرمائش نہیں کی ما سوائے سفر مدینہ ۔
شاید ماں جی اب صرف اپنی دیرینہ دلی خواہش زیارت روضہ رسول ﷺ کی منتظر تھیں کہ روضہ رسول ﷺ کی زیارت کے ایک دن بعدماں جی کی طبعیت اچانک خراب ہوئی ۔ صعف اورناقابل ِبرداشت تکلیف سے ان کا براحال تھا۔درد سے چیخیں نکل رہی تھیں۔پھرایک لمبی خاموشی کہ جیسے تمام دُکھوں سے چھٹکارامل گیا ہو۔ ہسپتال پہنچے ،ایمرجنسی وارڈ میں موجودڈاکٹر نے آنکھیں اورنبض چیک کرنے کے بعد اشارہ سے سمجھایا کہ اللہ کی یہی مرضی تھی۔ڈاکٹرکے مطابق میرے دوست کی ماں اب اس دُنیاسے رُخصت ہوچکی تھی۔ اس بے بسی کی حالت میں ماں سے بچھڑنے پر میرادوست اپنی ماں کا ہاتھ پکڑکرپانچ سالہ بچہ کی طرح بلک بلک کر رویاکہ اس کو دیکھ کر ہرآنکھ اشک بار تھی۔بقول ایک پنجابی شاعر
شالا رہوئے سلامت سجنوں سب تے سایہ ماں دا
میری نگاہ نے رب کریم کے تحفہء عظیم ماں کے خلوص ومحبت سے بھرے جذبات کے اس خوبصورت وحسین منظر کوعکس بندکرلیا اورمیرا دل اس منظر اورکیفیت سے ایسا بندھ گیا کہ میرے لئے زندگی بھران لمحات کوبھولناناممکن ہے۔ اس دوران میں سوچ رہاتھا ،ربِ کریم نے ماں کتنی عظیم ہستی بنائی، جسے اس تکلیف دہ حالت میں بھی اولاد کی فکر کہ پردیس میں میری وجہ سے میرا بیٹاپریشان ہے۔ بے شک تمام تعریفوں کی حق دار اورپاک ہے اللہ عزوجل کی ذات ِاقدس جس نے پوری کائنات میں ماں سے زیادہ سچا،مخلص اور اس ہستی کا نعم البدل بنایا ہی نہیں کہ جس کی مثال دی جاسکے ،یہی وجہ ہے انسان سے اپنے تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے اللہ عزوجل نے ماں جیسی بے مثل ہستی کوبطور مثال پیش کیاہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد اکرم اعوان کے کالمز
-
آوارہ کتے شہریوں کے لئے وبال جان !
منگل 28 جنوری 2020
-
کہیں پرندے بھوکے نہ رہ جائیں!
جمعرات 23 جنوری 2020
-
وحشی معاشرہ!
بدھ 15 جنوری 2020
-
بادشاہ رعیت سے ہی تاجدارہوتا ہے!
بدھ 8 جنوری 2020
-
اے عقل تم ہمیشہ دیرسے کیوں آتی ہو !
بدھ 1 جنوری 2020
-
ہمارا مسئلہ کیا ہے !
جمعرات 26 دسمبر 2019
-
حکمران اورعوام
جمعرات 12 دسمبر 2019
-
ہمارے تعلیمی مسائل اورسرکاری و نجی تعلیمی ادارے
جمعرات 5 دسمبر 2019
محمد اکرم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.