ہمارے تعلیمی مسائل اورسرکاری و نجی تعلیمی ادارے

جمعرات 5 دسمبر 2019

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

ہماری حکومتیں سرکاری سکولوں کے ذریعہ مناسب مفت ،لازمی اورمعیاری تعلیم دینے میں ناکام رہی ہیں۔ماضی میں حکومتوں کے اپنی اس بنیادی ذمہ داری ادا نہ کرنے کے ردعمل میں نظام تعلیم میں واضح تبدیلیاں نظرآئیں،والدین کے سامنے بچوں کی تعلیم کے لئے نجی سکولوں کی طرف رجوع کرنا مجبوری بن گیا۔غریب والدین کے لئے سستے نجی سکول ہی تعلیم کاواحدذریعہ رہ گئے، اس طرح بڑھتی ہوئی مارکیٹ کی ضرورت کوپورا کرنے کے لئے نجی سکولوں کا ایسا رجحان بڑھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے سستے پرائیویٹ سکولوں کی بھربھار ہوگئی جہاں تعلیمی معیارکے لئے کوئی ضابطے نہیں۔


 کم تعلیم اورغیرتربیت یافتہ سٹاف کو انتہائی معمولی تنخواہ پرنجی تعلیمی اداروں میں تدریس کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

جہاں حکومت کی مناسب نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے ناقص اورغیر معیاری تعلیم دی جارہی ہے۔محکمہ تعلیم کے اعلی عہدیداروں کی اس حوالہ سے عدم دلچسپی کے سبب نگرانی کا یہ حال ہے کہ صرف ایک ضلع سرگودھا کی 7تحصیلوں میں451سکول ایسے ہیں،جومحکمہ تعلیم کے ساتھ باضابطہ طورپر رجسٹرڈ ہی نہیں۔

اتنا کچھ ہونے کے بعد،اب کہیں جاکرمحکمہ تعلیم کی طرف سے کہاجارہاہے ،کہ محکمہ نے اُن تمام سکولوں کورجسٹرڈ کرنے ،تعلیم کے معیار اورسہولیات کی مانیٹرنگ کے لئے کمر کس لی ہے۔حدہوتی ہے کسی بات کی !ایک دو نہیں ساڑھے چارسو سکول اورحکومت کے محکمہ تعلیم کواُن کے وجودکی خبرہی نہیں۔یہ توصوبہ پنجاب کے ایک ضلع سرگودھا کا حال ہے،خوداندازہ لگائیں پورے پاکستان کے ہرگلی محلہ میں موجودایسے سکولوں کی تعدادکتنی ہوگی جہاں ناقص اورغیرمعیاری تعلیم دی جارہی ہے۔


 ہماری حکومتوں نے اپنی ذمہ داری اداکرنے کے بجائے دانستہ طورپرایسے نجی سکولوں کوتعلیم کی ذمہ داریاں منتقل ہونے کواپنی نااہلی اوراس دیرینہ مسئلہ کا حل سمجھا،تاہم یہ کوئی مناسب متبادل ہرگزنہیں،فی الحال تو جیسے تیسے وقت پاس ہورہا ہے مگراس کے معاشرے پرپڑنے والے اثرات ونتائج کئی دہائیوں کے بعدجاکرواضح طورپرہماری مقامی،قومی اورریاستی سطح پرسامنے آئیں گے۔


ہماری حکومتیں سکولوں میں ناکافی سرمایہ کاری کرتی ہیں،بلکہ اس شعبہ میں سرمایہ کاری کوضیاع سمجھا جاتاہے۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی،سائنسی اور ثقافتی تعلیم سے متعلقہ ادارہ یونیسیکوکے مطابق پاکستان تعلیم پرہماری سفارشات کے مقابلے میں بہت کم خرچ کرتا ہے۔ماہرین تعلیم پاکستان کی بگڑتی تعلیمی صورتحال پرتشویش کا اظہار کرتے نظرآتے کہ پاکستان میں تعلیم کے معاملے میں ہمیشہ عدم دلچسپی دیکھنے میں آئی۔

آبادی کے اعتباراوربچوں کی تعداد کے برعکس سرکاری سکولوں کی تعدادبہت کم ہے،یہاں تک کہ بڑے شہروں میں بچوں کووقت پرسکول پہنچانا ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔دیہاتوں میں تواس سے بھی بری صورتحال ہے۔ثانوی درجہ کے سکولوں کی تعدادپرائمری سکولوں سے بھی کم ہے۔اسی طرح کالجوں کی تعدادمزیدکم ہے۔
دیہاتی علاقوں میں اس دورمیں بھی میلوں تک کہیں سرکاری سکول کاوجودنہیں اور غریب والدین بچوں کوزیادہ فاصلہ کی بناپرسرکاری سکول تک نہیں بھیج سکتے،کیونکہ انہیں بچوں کوسکول بھیجنے کے لئے بہت بڑی قیمت اداکرنی پڑتی ہے۔

لہٰذاغریب والدین جوسرکاری سکولوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ،مایوس ہوکران کے پاس صرف سستے نجی سکولوں میں تعلیم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ نجی سکولوں میں کم تعلیم یافتہ اورغیرتربیت یافتہ اساتذہ کے پڑھانے کا انداز غیرمنظم اورناقص ہوتاہے۔
 ہماری کسی بھی حکومت کی طرف سے ایسی منظم کوشش ہی نہیں کی گئی کہ بچوں کوان کی لازمی اورمعیاری تعلیم کے لئے کوئی خصوصی اور عملی اقدامات کئے جائیں۔

پاکستان میں سکول جانے کی عمرکے بچوں کی بہت زیادہ تعداد ایسی ہے جوسکول نہیں جاتے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے نظام میں کئی اہم مسائل،مختلف شکلوں میں مستقل طورپرموجودہیں۔مارنہیں پیارصرف اشتہاراوربیان بازی کی حدتک ہے،حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے آئے روزسرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کے ساتھ بداخلاقی،بدسلوکی اوربے رحمانہ طریقہ سے جسمانی تشددکے واقعات پیش آتے ہیں۔

والدین کا بچوں کوسکول نہ بھیجنے کی بیشماروجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ بچوں کوسکول اوقات کے بعدپرائیویٹ ٹیوشن سنٹرمیں پڑھنے کے لئے دباؤڈالتے ہیں،ٹیوشن کے اضافی اخراجات غریب والدین کے لئے برداشت کرنا ممکن نہیں۔
آئین کے مطابق 5سے 16سال تک کے بچوں کومفت اورلازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ہے۔بامقصدتعلیم ہر بچے کابنیادی حق ہے۔

آئندہ نسلوں کی انفرادی واجتماعی زندگی بچوں کی تعلیم سے وابستہ ہوتی ہے۔حکومت کوتعلیم کے شعبہ پرخصوصی دینی چاہیے۔حکومت کو چاہیے نظام تعلیم کودرست خطوط پراستوارکرے۔غریب عوام کوٹیوشن مافیاسے چھٹکارادلایا جائے۔امیروغریب سب کے لئے معیاری تعلیم اور یکساں نصاب پرعملدرآمدممکن بنایاجائے۔روایتی تعلیم کے علاوہ،بلنداخلاق اوراچھے کردارکی خصوصیات پیداکرنے کے لئے ایسی تربیت جس میں بچوں کو بطریق احسن زندگی گزارنے کا درس شامل ہو،جہاں بچوں کے دلوں میں محنت میں عظمت پریقین پیدا کیاجائے اوردورجدیدکے بڑھتے تقاضوں کے مطابق نئی نسل کوتیار کیا جاسکے۔

تعلیمی معیار اورشرح خواندگی بڑھے گی توپاکستان ترقی کرے گا۔تعلیم ہی طاقتورپاکستان کی ضمانت ہے۔معیاری تعلیم کوسستااورعام کیا جائے،تاکہ ملکی صنعت اوراداروں کو قابل،ہنرمند افراد میسر ہو سکیں،اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے اورپاکستان صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :