بادشاہ رعیت سے ہی تاجدارہوتا ہے!

بدھ 8 جنوری 2020

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

 تاریخی واقعات،قصے،کہانیاں اورصدیوں سے چلی آرہی حکایات میں عقل وشعوررکھنے والوں کے لئے سبق،اصلاح،تربیت اورسدھارکی کوئی نہ کوئی نشانی ضرورہوتی ہے۔ نوشیروان ایسا دیانت داراورعادل بادشاہ تھا،جس کے قصے صدیوں سے مشہورچلے آرہے ہیں۔نوشیروان عادل ایسے بلندکردارکا مالک تھا ،اُس کے عدل وانصاف کے بدولت عوام اُس کے گرویدہ اورعاشق ہوگئے، اُس کے وزاراء نے پوری کوشش کی کہ پرانے بادشاہوں کی طرح نوشیروان کوبھی اپنے جائزوناجائزفائدہ کے لئے استعمال کریں،مگرنوشیروان نے ایسے عمدہ اقدامات کئے ،جن سے پوری سلطنت میں امن وامان اورعدل وانصاف کی فضاء قائم ہوگئی۔

اس کا عہدانسان تاریخ کا سنہرہ باب تھا۔
نوشیروان کی طرف سے کئے گئے تمام اقدامات میں سب سے زیادہ اہمیت اوراولین ترجیح عدل وانصاف کو حاصل تھی۔

(جاری ہے)

اس کے محل کے دروازے ہرخاص وعام کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے تھے ۔کسی بھی فریادی کے لئے شب وروزکی کوئی قیدنہیں تھی۔اس کے محل کے باہر گھنٹی ایک رسی کے ساتھ بندھی رہتی ،دن رات میں کوئی بھی فریادی اُس رسی کو ہلاکرفریاد کرسکتا تھا۔

ایک بڑھیا نے نوشیروان سے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم وستم پرعدل کی استدعاکی۔نوشیروان نے تحقیات کروائی تومعلوم ہوا کہ متعلقہ صوبہ کے گورنرنے بڑھیا کے خاندان کے افراد کوبے رحمی سے قتل کرنے کے بعداس کی جائیدادپرقبضہ کرلیا تھا،نوشیروان اس لرزہ خیزخبرسے سیخ پا ہوگیااوراس کے حکم پرمتعلقہ گورنرکی زندہ کھال کھینچ کرعبرت کی ایسی مثال قائم کی کہ پھرکسی حکومتی عہدہ دارکورعایا پرظلم وجبرروا رکھنے کی جسارت نہ ہوئی۔


نوشیروان نے عدل کے احکامات صرف اپنے اعلی عہداروں کے لئے نہیں دے رکھے تھے بلکہ اس اصول پرخود بھی عمل پیرا تھا،کہاجاتا ہے کہ بادشاہ نے نئے محل کی تعمیرکاحکم دیا،محل کے نقشہ کے مطابق ایک جگہ اُس محل میں شامل کرنی تھی،مگرایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی اس جگہ پرتھی،اُس بڑھیا کی اُس جگہ کے ساتھ دلی وابستگی تھی،اُس کے خاوند اوربیٹیوں کی یادگاریں وابستہ تھیں،بادشاہ کی ترغیب کے باوجودوہ اپنی جگہ دینے پرآمادہ نہ ہوئی،جس کی وجہ سے بادشاہ کے محل میں ٹیڑھا پن باقی رہا۔

نوشیروان کا عہدایسے بے شمار واقعات بھرا ہوا تھا۔اس کے عہد میں عدل وانصاف کو عالمگیرشہرت حاصل ہوئی ،فتوحات اورسیاسی طاقت کے لحاظ سے بھی اس کے عہد کو خاص اہمیت حاصل ہے،یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگ اُس کے عدل وانصاف ،کامیابی،رعایا کے حقوق کی ادئیگی اورخیرخواہی کی مثالیں دیتے ہیں ۔
 نوشیروان شکارکا بہت زیادہ شوقین تھا، بادشاہ ہو،شکارکادلدادہ ہواوراہتمام نہ ہویہ کیسے ممکن ہے،نوشیروان بھی شکارکی قسم کے اعتبارسے،شکارکی موجودگی ، موسم اورہرقسم کے حالات کومدنظررکھتے ہوئے شکارپرنکلتا،ایک مرتبہ نوشیروان شکارکے لئے مخصوص ساتھیوں کے ساتھ شکارپرگیا،دوپہرکے بعدتک ہرن شکارکرلئے گئے،دوپہرڈھل چکی تھی ،کھانے میں پہلے ہی تاخیرہوچکی تھی،سب کا بھوک سے برا حال تھا، اس لئے شاہی باورچی کوجلدی کھانا تیارکرنے کی ہدایت کی گئی، شاہی باورچی نے ایک محافظ سے کہا کہ آج اگرتاخیرہوگئی توسمجھومیں تو ماراگیا،اُس کی پریشانی کی وجہ اورمسئلہ یہ درپیش تھاکہ شاہی محل سے نکلتے وقت اُسے سامان میں نمک رکھنا یادنہیں رہا،جب نوشیروان کوباورچی کی اس کوہتاہی کا علم ہواتواس نے اپنے ایک محافظ کوقریبی دیہات سے نمک لانے کے لئے بھیجااورتاکید کی کہ نمک کے پیسے اداکئے جائیں،جس پروزیرنے کہا،جناب ذرا سے نمک کی کیا حیثیت ہے،کہ اس کے بھی دام ادا کئے جائیں۔

نوشیروان نے کہاتم ٹھیک کہتے ہو،ذراسے نمک کی بات ہے۔لیکن اگرحکام کوبغیردام دیئے ،چیزیں لینے کی عادت پڑگئی توجانتے ہو کیاہوگا؟اگرآج میں نے مفت کا نمک حلق سے نیچے اُتارلیاتومیری فوج پراس کے اتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے وہ دوسروں کے کھیت کھلیان مفت میں اُجاڑدے گی۔اگرکوئی حکومتی عہدہ دارکسی باغ سے ایک سیب بغیردام دیئے توڑلے توباقی اہلکارپورا باغ اُجاڑ کررکھ دیں گے۔

ظلم ہمیشہ پہلے ذرا ساہوتاہے مگرباربارکیا جائے توبڑھتا جاتا ہے۔حاکم اوربادشاہ اگراسی طرح ظلم کرتے جائیں توعوام تباہ حال اورملک تباہ وبربادہوجاتے ہیں۔رعایا کے دلوں میں ظلم پرقائم ایسی حکومت اورحکمرانوں کے خلاف نفرت پیداہوجاتی ہے۔عوام اپنی بدحالی اورظلم وستم سے تنگ آکربغاوت پراُترآتی ہے۔نوشیروان نے موت سے پہلے اپنے بیٹے اورولی عہد کونصیحت کرتے ہوئے کہاتھاآرام کی فکرمیں عوام کی مشکلات اورمسائل سے غافل نہ ہونا،تواپنا اطمینان اورچین چاہتا ہے توفقیرکے دل کا نگہبان ہوجا۔

اگرتوصرف اپنے ہی آرام کی فکرمیں رہے گا توپھرتیرے ملک میں کوئی بھی آرام نہ حاصل کرسکے گا۔کیونکہ عقل مندوں کے نزدیک یہ بات پسندیدہ نہیں کہ ایک چرواہااپنی بھیڑبکریوں سے غافل ہوکرسوجائے اورجانوروں کوبھیڑیاچیرپھاڑکرکھا جائے،اپنی محتاج رعایا کا خیال کرکہ بادشادہ رعیت سے ہی تاجدارہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :