اس سے سبق سیکھ لیں !

اتوار 24 جنوری 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ واقعہ مجھے ڈاکٹر صاحب نے سنایا تھا ، ڈاکٹر صاحب چند دن پہلے جاپان سے واپس آئے تھے ،وہ جاپان کی مسلم سوسائٹی کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس میں مدعو تھے ،وہ جاپان سے واپس آئے تو میرا پہلا سوال یہی تھا کہ آپ نے جاپان اور جاپانیوں سے کیا سیکھا ، اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے یہ واقعہ سنا دیا ،وہ بتانے لگے ”ہم ایک کانفرنس میں شریک تھے ،کانفرنس ختم ہوئی تو ایک پاکستانی زبردستی کھانے کے لیے ہمیں اپنے گھر لے گیا ، وہ پچھلے دس سال سے جاپان میں مقیم تھا اور وہاں اس نے ایک جاپانی عورت سے شادی کر لی تھی،کھانے کی میز پر بیٹھے تو میں نے پوچھا آپ پچھلے دس سال سے جاپان میں مقیم ہیں اورآپ جاپانیوں میں رچ بس گئے ہیں، آپ کی رفیقہ حیات بھی جاپانی ہیں آپ کے خیال میں جاپانیوں کی ترقی کا راز کیا ہے ؟وہ بولے ”جاپانیوں کی ترقی کا سب سے بڑ ا راز یہ ہے کہ یہ اپنے ملک اور قوم سے حد سے زیادہ پیار کرتے ہیں ،انہیں اگر اپنی جان اور ملک کا انتخاب کرنا پڑے تو یہ اپنی جان کی پرواہ نہیں کریں گے اور یہ سبق انہوں نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی سے سیکھا ہے ، میں نے پچھلے سال ٹیکس ادا نہیں کیا تھا لیکن میری رفیقہ حیات کو پتا چلا تو وہ مجھ سے ناراض ہو گئیں ،میں نے بہت سمجھا یا کہ ٹیکس کی تھوڑی سی رقم بنتی تھی اگر ہم نے اسے چھپا لیا تو اس میں کیا حرج ہے “، وہ بولی” نہیں آپ یہ ٹیکس نہیں چھپا سکتے اگر آپ نے میرے ساتھ رہنا ہے تو آپ کو یہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا “
دوسری جنگ عظیم سے پہلے جا پا نی خو د کو دنیا کی بہترین قوم سمجھتے تھے ،وہ خو دکو سورج کی اولا د سمجھتے تھے اور ان کا نعرہ تھا ”جنوبی ایشیا صرف جا پا نیوں کے لیے ہے “،وہ 1937سے1945تک اسی جذبے کے تحت لڑتے رہے اور اس میں انہیں کچھ کا میابیا ں بھی ملیں ،مثلا انہوں نے منیلا ،سنگا پورا ور رنگون کے بعض علا قوں پر قبضہ کر لیا تھا لیکن تقدیر کچھ اور کر نا چاہتی تھی ۔

(جاری ہے)

امریکہ نے اگست 1945میں ہیرو شیما اور نا گا ساکی پر بم برسائے اور جا پانیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ سورج کی اولا د کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا اوراحساس تفا خر کی گو د میں پلی قوم کے لیے شکست تسلیم کر نا نا ممکن تھا ۔دوسری طرف تقدیر اپنا فیصلہ سنا چکی تھی۔ 14اگست1945کی شام شاہ جا پان آن ایئر ہو ئے اور انہوں نے اپنی قو م کے نا م ایک ریڈیا ئی پیغام نشر کیا ”ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک عظیم امن کی بنیا د رکھنا چاہتے ہیں ،ہم انہیں ایک ایسا ملک دینا چاہتے ہیں جو امن کا علمبردار ہو ،جس کی بنیادیں اقتصادی خود مختاری پر رکھی گئی ہوں اور جو ساری دنیا کے لیے ایک مثال ہو ۔

ا س کے لیے ہمیں سخت محنت کر نی پڑے گی ،ہمیں اپنے احساس برتری سے نکلنا ہو گا ،ہمیں آنے والی دنیا کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا ہو گا اور ہمیں اپنی مو جو دہ شکست کو تسلیم کر نا ہو گا ،آج ہمیں وہ برداشت کر نا ہے جو ہمارے لیے نا قابل برداشت ہے اور آج ہمیں وہ تسلیم کر نا ہے جسے ہمارے دل و دماغ تسلیم نہیں کر نا چاہتے “جیسے ہی یہ پیغام نشر ہوا جا پانی قوم دھاڑیں مار کر رونے لگی،ان کے لیے یہ پیغام مو ت سے ذیادہ تکلیف دہ تھا ۔

ہیرو شیما اور نا گا ساکی کی تبا ہی کے بعد جا پان بالکل بدل چکا تھا ،ساری صنعتیں تباہ ہو چکی تھیں ،ملیں اور فیکٹریاں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں ،لاکھوں لو گ مو ت کی وادی میں جا چکے تھے ،ہزاروں جا پانی زندگی اور مو ت کی کشمکش میں تھے ، کنویں زہر آلو د تھے ،ہوا زہریلی گیسوں کا مرکب بن چکی تھی اور پو رے جا پان میں مو ت کا راج تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب جا پانیوں نے اپنے احساس برتری سے نکل کر حقیقت کی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا تھا اور اپنے وطن سے محبت کرنا سیکھی تھی ،انہوں نے حقائق کو تسلیم کرلیا تھا اور اب وہ ایک نئے جا پان کی بنیا د رکھنا چاہتے تھے ۔

اس کے بعد جا پانیوں نے اپنی تما م تر توجہ،امن ،قانون، سا ئنس ،ٹیکنالوجی اور اقتصادیا ت کی طرف مو ڑ دی،ہر جا پانی نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی فیکٹری لگا ئی اور مصنوعات تیار کر نا شروع کر دیں ،وہ لو گ سولہ سولہ گھنٹے کا م کر نے لگے ،انہوں نے اپنا نظام تعلیم درست کیا ،نیا سلیبس ترتیب دیا ،ذہین اسٹوڈنٹس کو امریکہ اور یو رپ کی اعلی یو نیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے بھیجا ،پرا ئمری کے اساتذہ کی تربیت کی ،لا ء اینڈ وٴرڈر کی صورتحال کو بہتر بنا یا اور پو ری جا پا نی قوم نے امانت ،دیانت ،وقت کی قدر اور وطن کی محبت کو اپنا ما ٹو بنا لیا ۔

پھر کیا ہوا ، صرف تیس سال بعد تاریخ بدل گئی اورہیرو شیما اور نا گا ساکی پھر جا پا ن بن گئے ۔جاپا نی مصنوعات امریکی ،یورپی اور ایشیائی منڈیوں میں راج کر نے لگیں اور الیکٹرونکس اور آٹو مو بائل کے شعبے میں جا پان دنیا کا امام بن گیا ۔خود امریکی اپنے ملک کی چیزیں چھو ڑ کر جا پانی مصنوعات کو ترجیح دینے لگے ،1945کے بعد جا پان امریکہ کا مقروض ہو گیا تھا لیکن اب امریکہ جا پان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور آج بھی کہا جا تا ہے جا پان سب سے بڑا مہا جن اور امریکہ سب سے ذیادہ مقروض ملک ہے ۔

ایک دور میں امریکی کمپنی آئی بی ایم کمپیوٹر کی دنیا میں سب سے آگے تھی اورا سے کمپیوٹر کی دنیا کا دیو کہا جا تا تھا ،آئی بی ایم والے جا پان کی کمپیوٹر بنا نے والی کمپنیوں کا مذاق اڑاتے ہو ئے کہتے تھے آئی بی ایم اگر چھینک بھی ما رے تو ساری جا پا نی کمپنیاں ہوا میں اڑ جا ئیں لیکن پھر ایک دور آیا کہ جا پانی ساری کمپیوٹر انڈسٹری پے چھا گئے اور آئی بی ایم سے ذیادہ ماہر کمپیوٹر مارکیٹ میں لا کر رکھ دیے ۔


اگرجاپان کی تاریخ میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی نہ ہوتے تو آج جاپان جاپان نہ ہوتا ،افرادہوں ، اقوام یا ملک یہ سانحات ہمیں بے بس اور مایوس کرنے کے لیے نہیں بلکہ ہمیں آگے بڑھنے کا درس دینے کے لیے رونما ہوتے ہیں ،چارسدہ یونیورسٹی میں شہید ہونے والے معصوم طلبا اگرچہ واپس نہیں آئین گے لیکن ان کا خون ہمیں متحد ضرور کر جائے گا ، ان کے خون سے ہمیں یہ پیغام ضرور مل گیا کہ ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا دشمن ابھی گھات میں ہے اور وہ کسی بھی لمحے ہم پر وار کر سکتاہے اس لیے ہمیں ابھی مزید بہت کچھ کرنا ہے ۔

پچھلے سال پشاور اسکول میں شہید ہونے والے طلبا کے خون نے ہمیں ایک منزل دکھائی تھی اور ہمارے لیے دوست اور دشمن کا فرق واضح کر دیا تھا ،یہ ان کی قربانیوں کا صدقہ تھا کہ ہم نے یکسو ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا ،پوری قوم ایک بیانیے پر متحد ہوئی اور صرف پچھلے ایک سال میں پاکستان کو وہ کامیابیاں نصیب ہوئیں جو پچھلے دس سال سے حاصل نہ ہو سکیں ۔

سانحہ چارسدہ کا پیغام بھی یہی ہے کہ ہمیں ابھی مطمئن ہو کر نہیں بیٹھنا ،دشمن پوری پلاننگ کے ساتھ ابھی تک کمین گاہوں میں چھپا ہے ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا ۔
قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں ایسے سانحات رونما ہوتے رہتے اور یہی سانحات ایک قوم کو قوم بناتے ہیں ، اگر ہم نے اس سانحے کے بعد اپنی دشمنوں کی پہچان کرلی اور پوری قوم ایک بیانیے ہر متحد ہو گئی تو جانے والوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا لیکن اگراب بھی ہم ،ہمارے حکمران اور ہماری مذہبی وسیاسی جماعتیں متحد نہ ہوئیں اور یہ ملک ایک بیانیے پر متحد نہ ہوا تو پھر شاید ہم اگلی ایک صدی میں بھی اس بکھرے ہوئے ہجوم کو ایک قوم نہیں بنا سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :