
سیاسی یتیم !
ہفتہ 17 ستمبر 2016

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
اس کے برعکس آپ پاکستان کے انتقال اقتدار کے سسٹم پر نظر دوڑائیں ،ہمارے ہاں دوتین ماہ تک نگران حکومت کے قیام کے لیئے مذاکرات چلتے رہتے ہیں ،نگران حکومت کے قیام کے سلسلے میں منعقد ہونے والا ایک ایک اجلاس قوم کو دس دس لاکھ میں پڑتا ہے ،سیاسی فضا میں طوفان آجاتا ہے ،ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس سارے پراسس میں لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کر دیا جاتا ہے ۔ نگران حکومت اپنے عرصہء اقتدار میں قو می خزانے کا منہ کھول دیتی ہے ،من پسند افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے اور جاتے جاتے یہ نگران حکومتیں اپنے لیئے تا حیا ت مراعات کے بل پاس کر لیتی ہیں ۔ ان مراعات میں اہل خانہ کے لیئے تا حیا ت ملک اور بیرون ملک طبی سہولیات کی مفت فراہمی ،تاحیات سکیورٹی گارڈ،تاحیات پرائیویٹ سیکرٹری،خانساماں اور ڈرائیور کی سہولت،تاحیات سرکاری گیسٹ ہاوٴسزمیں مفت رہائش،تا حیات سفارتی پاسپورٹ ،فری ٹیلی فون ،تین ممنوعہ اور چھ غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے لائسنس،ملک کے تمام ایئر پورٹس سے فری پک اینڈ ڈراپ ،پروٹوکول کوریج اور ایئر پورٹ فورس کے خصوصی اجازت نامے شامل ہوتے ہیں ۔ آپ اپنے جمہوری سسٹم کی دوسری خرابی دیکھیں ۔ہمارے ہاں انتخابات ہوتے ہیں ،ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کے ذریعے حکومتیں بنتی ہیں اور اتحادیوں کو ساتھ ملانے کے لیئے وزارتیں بانٹ دی جاتی ہیں۔بی اے پاس کو ریلوے کا وزیر بنا دیا جاتا ہے ،میٹر ک پاس کو پی آئی اے کا محکمہ سونپ دیا جاتا ہے ، گاوٴں سے منتخب ہونے والے ایم این اے کو ٹرانسپورٹ کا وزیر بنا دیا جاتا ہے ،جسے بولنا نہیں آتا اسے وزیر اطلاعات و نشریا ت بنا دیا جاتا ہے اور جسے اقتصادیات کے مفہوم کا پتا نہیں ہوتا اسے خزانے کا وزیر بنا دیا جا تا ہے اور پھر جب یہ ”قابل “وزیر کچھ ہی عرسے میں اپنی وزارت کو قبر کے دھانے تک پہنچا دیتے ہیں تو ان کو تبدیل کر کے چھری نئے قصائی کے ہاتھ میں پکڑا دی جاتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ ہماری کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ایسے قابل اور ٹرینڈ وزراء نہیں جو ملک کے تما م شعبوں کو سنبھال سکیں ،ہمارے ہاں جو بھی جماعت اقتدار میں آتی ہے وہ سب سے پہلے گزشتہ حکومت کی پالیسیوں اور اس کے جاری کردہ ترقیاتی منصوبوں پر پابندی لگاتی ہے اوریوں جانے والی حکومت کے تمام اچھے کا م سیاست کی بھینٹ چڑ ھ جاتے ہیں ۔یہ ملک گزشتہ پینسٹھ سالوں سے حکمرانوں کے لیئے ایک سیاسی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے اور ہر نیا لیڈر اس تجربہ گاہ میں نت نئے تجربات کر رہا ہے ۔ہما را المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ منصوبے اور پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں اور یہی ہمارے سسٹم کی بنیا دی کمزوری ہے ۔امریکہ اور برطانیہ میں ایسا نہیں ہو تا ،ان ممالک میں ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کو اپنی پالیسیوں ،ترقیاتی منصوبوں اور خارجہ پالیسی سے آگا ہ کر دیتی ہے اور یوں وہاں سسٹم کو دھچکا نہیں لگتا اور نظام پہلے کی طرح چلتا رہتا ہے ۔امریکہ ،برطانیہ،اٹلی ،جرمنی اور یورپ کے دیگر کئی ممالک میں تو اپوزیشن بھی باقاعدہ اپنی کابینہ تشکیل دیتی ہے جو ایک طرف حقیقی کابینہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے اور دوسری طرف وہ خود سیکھ رہی ہوتی ہے کہ حقیقی کابینہ کے فرائض واختیارات کیاہیں ،حقیقی کابینہ کہاں غلطیاں کر رہی ہے اور اقتدار میں آکر ان غلطیوں سے کیسے بچنا ہے ،یہ ساری صورتحال ان ممالک کے سیاسی سسٹم کو مضبوط رکھتی ہے اور یوں وہاں حکومتوں کے آنے جانے سے کو ئی خاص نقصان نہیں ہوتا ۔ہماری سیاسی جماعتوں اورسیاسی لیڈروں کو اب جمہوریت کا یہ سبق سیکھنا ہو گا ،یہ ملک گزشتہ اڑسٹھ سالوں سے سیاسی یتیم ہے اور اب اس ملک کو ایسے حکمرانوں اور لیڈروں کی ضرورت ہے جو اس ملک کی اڑسٹھ سالہ یتیمی کا احساس دور کر سکیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.