
جوائنٹ فیملی سسٹم !
اتوار 23 اکتوبر 2016

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
محترمہ نے اس سے بھی بڑی جسارت یہ کی کہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے غلط مقدمہ قائم کیا اور پھر خود ہی اس سے نتیجہ اخذ کر لیا ۔ کہتی ہیں جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑے بھائی کو سب کی خاطر قربانی دینی پڑتی ہے ،بیوی کے نفقے اور اولاد کے پیسے فیملی پر خرچ کرنے پڑتے ہیں اور پھر اس مقدمے سے خود ہی نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ اسی وجہ سے جوائنٹ فیملی سسٹم ہندوانہ ہے، ایسی دلیل کو fallacy of irrelevance کہتے ہیں کہ آپ مقدمے کے ایسے قضیے اور دلائل پیش کریں جو نتیجے سے غیر متعلق ہوں اور انہیں زبردستی اس نتیجے کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ مخالف کو خاموش کروایا جاسکے۔یہ دلیل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ تمہیں بھوک لگی ہے ، باہر سردی ہے لہذا کرکٹ کھیلنے چلتے ہیں ۔ یہ ہے اس ساری سوچ اوذہنیت کا خلاصہ جو محترمہ نے اپنی مختصر سی تحریر میں پیش کی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ مروجہ خاندانی نظام اسلام کے اصول معاشرت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے ، مہذب اور سلجھے ہوئے خاندانوں میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا جو محترمہ نے منظر کشی کی ہے ، بڑا بھائی عموما والد کے ساتھ مل کر گھر اور کارو بار کو سنبھالتا ہے پھر جیسے جیسے چھوٹے بھائی جوان ہوتے جاتے ہیں وہ والد اور بھائی کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں ، یہ ہے اصل تصویر جو اس وقت ہمارے معاشرے میں ر ائج ہے ۔ رہی یہ بات کہ بڑے بھائی اور بھابی کو سب سے ذیادہ محنت کرنی پڑتی ہے تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر چھوٹے بھائیوں میں سے کوئی بڑا ہوتا تو اسے بھی یہ سب کرنا پڑتا ، اب یہ اللہ کی مرضی کہ اس نے بڑے بھائی کو پہلے دنیا میں بھیج دیا اور چھوٹے کو بعد میں ۔ دوسری بات یہ کے اگر بڑے بھائی کو دوسروں سے ذیادہ محنت کرنی پڑتی ہے تو اس کے عوض وہ بہت سارے فوائد بھی سمیٹ رہا ہوتا ہے ، مثلا بڑے بھائی کی اولاد جوائنٹ فیملی میں ہی پل کر جوان ہو جاتی ہے اور اسے الگ سے بچوں کے اخراجا ت برداشت نہیں کرنے پڑتے ۔ عموما بڑا بھائی کمانے کے لیے گھر سے دور جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی بیوی اور بچے جوائنٹ فیملی میں مطمئن اور محفوظ رہتے ہیں ، ذرا تصور کریں اگر بڑا بھائی ملک سے باہر ہو اور بیوی کو اکیلے گھر میں رہنا پڑے تو اس کے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں ؟ مزید برآں بڑے بھائی کو جو عزت و احترام ملتا ہے وہ چھوٹوں کے حصے میں کم ہی آتا ہے ،بڑے بھائی کی اولاد کو جو پیار محبت ملتا ہے وہ چھوٹوں کی اولاد کو نہیں ملتا۔ یہ وہ فوائد و ثمرات ہیں جن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔ رہا یہ سوال کہ صحابہ کرام کے دور میں جوائنٹ فیملی کی کوئی مثال نہیں ملتی تو یہ ایک بچگانہ سوال ہے کیونکہ ہر پیش آمدہ حکم اور ہر نئی روایت کی دلیل خلفائے راشدین کے طرز عمل اور ان کے معاشرے سے ڈھونڈنا کوئی عقل مندی نہیں کیونکہ سنت الہیہ یہ ہے کہ وہ احکام کے نزول میں ایک مجموعی ضابطہ حیات بیان کرکے جزئیات اور فروعیات کو انسانی عقلوں پر قیاس کر کے ان سے پہلو تہی کر لیتی ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام غیر مسلموں اور دشمنوں کے ساتھ تو حسن سلوک کا حکم دے لیکن ایک گھر کے اندر رہنے والے دو سگے بھائیوں کو اس حکم کا مخاطب نہ ٹھہرائے ، اسلام چالیس گھروں تک ہمسائیگی کے آداب تو سکھائے لیکن دو بھائیوں کو جوائنٹ فیملی میں رہنا نہ سکھائے ۔ اور پھر معاشرتی اقدارو روایات بھی کوئی چیز ہوتی ہیں، ہمارے مشرقی معاشروں میں جوائنٹ فیملی سسٹم کو آج بھی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ جوعورت شادی کے فورا بعد بھائیوں کو آپس میں لڑوا دے اور گھر سے الگ ہو جائے وہ آج بھی معاشرے میں مطعون ٹھہرتی ہے ۔ اس سسٹم میں موجود غلطیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کی بات تو کی جا سکتی تھی لیکن سرے سے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دے دینا بہت بڑی جسارت تھی۔آخر میں سوشل میڈیا کے کردار کے حوالے سے بھی بات ہو جانی چاہیے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوشل میڈیا جن جرائم اور زیادتیوں کے خلاف میدان میں آیا تھا آج وہ خود ان جرائم میں ملوث ہو چکا ہے ۔ آپ مذکورہ تحریر کو دیکھ لیں ، محض سنسنی خیز عنوان کی وجہ سے اسے اتنی ریٹنگ ملی ،یہ کوئی مکمل تحریر نہیں بلکہ محض چند بکھری ہوئی باتیں تھی ،تحریر کی ابتدائی سطریں شعر کے انداز میں لکھی گئی تھیں جسے بعد میں نثر کے پیرائے میں ڈھال دیا گیا تھا ۔ اتنے اہم اور نازک موضوع کو بلا کسی ٹھوس دلائل و شواہد کے پیش کر دینا اور صدیوں سے رائج ایک نظام کو بیک جنبش غیر اسلامی قرا ر دے دینا یہ سب سوشل میڈیا کی ” برکات “ ہی تو ہیں ۔ لکھنے کے شوقین نئے لکھاری ہر اچھے برے موضوع پر طبع آزمائی کر رہے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کی ان سرگرمیوں سے اسلام،ملک اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ، کچے ذہن ، محدود مطالعے اور مشہور ہونے کے شوق نے نئے لکھا ریوں کوحقیقت سے بہت دور کر دیا ہے ۔سوشل میڈیا کے تناظر میں اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.