
پانامہ کی عجیب کہانی
اتوار 12 فروری 2017

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
اب ہم واپس آتے ہیں پانامہ کی طرف، بیدار بخت بہار شاہ ظفر کے سب سے چھوٹے بیٹے جواں بخت کا پڑپوتا تھا۔ جواں بخت 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد زندہ بچ جانے والا آخری شہزادہ تھا- بہادر شاہ ظفر کی آٹھ بیویاں تھیں جن میں سے ایک کا نام زینت محل تھا، زینت محل سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جواں بخت رکھا گیا -1852ء میں شہزادہ جواں بخت کی شادی ہوئی تو اس کی خوشی میں دلی میں دس روز تک جشن منایا گیا تھا- انگریز سر کا ر نے بادشاہ کو رنگون میں جلا وطن کیا تو شہزادہ جواں بخت بھی ان کے ساتھ تھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنی زندگی کے آخری ایام برما کے شہر رنگون میں گزارے ، انگریزی سرکار بہادر شاہ ظفر کو مہینے بعد چند سو روپے وظیفے کے طور پر دے دیا کرتی تھی اور اسی سے بہادر شاہ ظفر اور اس کا خاندان اپنا گزارا کرتا تھا۔ جواں بخت کو اللہ نے ایک بیٹا عطا کیا جس کا نام جمشید بخت رکھا گیا۔ جمشید بخت کے دو بیٹے تھے۔ایک مرزا سکندر اور دوسرے بیدار بخت۔جواں بخت نے اپنے والد بہادر شاہ ظفر اور ماں بیگم زینت محل کو اپنے ہاتھوں سے رنگون کی خاک میں دفن کیا- کسی نئی بغاوت کے خوف سے جواں بخت کو کبھی ھندوستان نہ آنے دیا گیا- اسے برما میں ایک بنگلہ عنایت کر دیا گیاتھا۔ جواں بخت کا بیٹا جمشید بخت برما میں پیدا ہوا اور اس نے وہیں انگریزی تعلیم حاصل کی- جمشید بخت کو بھی ھندوستان آنے کی اجازت نہ مل سکی- اس نے 60 سالہ زندگی برما میں ہی گزار دی اور بے شمار راز سینے میں لئے 1921ء میں راہیء ملک عدم ہو گیا- جمشید بخت کی وفات کے بعد اس کے تین سالہ بیٹے بیدار بخت کو اس کا ایک چچا کلکتہ لے آیا تاکہ انگریز حکومت سے اس کی وظیفے کی درخواست کی جا سکے جو باپ کی وفات کے بعد بند ہو گیا تھا- بیدار بخت کا وظیفہ اس شرط پر بحال کیا گیا کہ وہ کسی سیاسی جلسے میں سامنے نہیں لایا جائے گا اور کسی سے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی- اسے پچاس روپے انگریز سرکار سے ، پچاس روپے نظام آف حیدر آباد سے اور سو روپے نظام الدین اولیاء فنڈ سے ملتے تھے- 1925میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بہادر شاہ ظفر کے خاندان کو واپس دلی بلانے کی کوشش کی تھی لیکن انگریزوں نے اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھاکہ انہیں کلکتہ لے جاوٴ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ وہاں کسی پر یہ ظاہر نہ کریں کہ وہ بہادر شاہ ظفر کے خاندان سے ہیں۔نتیجے میں انہیں پھولوں کے بکس میں چھپا کر ہندستان لایا گیا تھا۔تقسیم کے بعد بیدار بخت کبھی سامنے نہ آیا- البتہ کلکتّہ کے لوگ کبھی کبھی لمبی اچکن کے ساتھ شاھی جوتا پہنے ، ہاتھ میں گلاب کا پھول لئے ایک شخص کو کلکتہ کی گلیوں میں چہل قدمی کرتے ضرور دیکھا کرتے تھے۔
بہادرشاہ ظفر کی اکثر اولاد 1857ء کی ناکام بغاوت کے بعد ہلاک ہو گئی تھی لیکن شہزادہ جواں بخت زندہ بچ گیا تھا، جواں بخت کا بیٹا جمشید اورجمشید کا بیٹا بیدار بخت تھا اور سلطانہ بیگم اسی بیدار بخت کی بیوہ ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کی زندہ بچ جانے والی اولاد میں سے کچھ ہندوستان، ڈیٹرائٹ، مشی گن امریکا اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں۔بیدار بخت 1980 میں کلکتے میں وفات پاگیا تھا اور آج اس کی بیوہ سلطانہ بیگم کلکتے میں رہائش پزیر ہے۔یہ شہزادی اپنے پڑوس کے ساتھ مشترکہ کچن میں کھانا پکاتی اور گلی میں نصب ٹونٹی سے کپڑے دھوتی ہے۔ حکومت ہند کی طرف سے اس شہزادی کو چھ ہزار روپیہ مہینا وظیفہ ملتا ہے۔کاش وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز سلطانہ بیگم کی یہ کہانی پڑھ لیتے تو شاید انہیں اپنی دولت چھپانے کے لیے قطری شہزادے کے خط کی ضروت نہ پڑتی۔ کاش وہ جان لیتے کہ یہ دولت اور اقتدار ہمیشہ انسان کے ساتھ نہیں رہتے ، اگر یہ دولت اور اقتدار مغلیہ خاندان کے پاس نہیں رہااور ان کی اولادیں آج چائے کے کھوکھے چلا کر گزارہ کر رہی ہیں تو یہ ان کے پاس بھی ہمیشہ نہیں رہیں گے ۔ کاش یہ جان لیں کہ دولت اور اقتدار جانے والی لیکن نیک نامی اور عزت باقی رہ جانے والی چیزیں ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.