مولانا اسلم شیخوپوری شہید

اتوار 14 مئی 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

13مئی 2012کا دن میری زندگی کے ان دنوں میں سے ہے کہ جنہیں میں اپنے حافظے سے کھرچ کر بھی نکالنا چاہوں تو نہیں نکال سکتا ۔یہ دن میرے لیے اتنا کربنا ک کیوں ہے ، آپ تھوڑا سا ساتھ دیں امید ہے کالم کے آخر تک آپ کو اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ وہ تین سال کا تھاجب پہلی بار اس پر فالج کا اٹیک ہوا اور وہ ہمیشہ کے لیئے چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔اس کا سارا بچپن فالج سے مقابلہ کر تے ہو ئے گزر گیا ، حملہ بہت سخت تھا اور وہ زندگی بھر کے لیئے وہیل چیئر پر منتقل ہو گیا ۔

اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا،وہ ہر لمحہ پڑھنے کے لیئے بے چین رہتا تھا ، وہ اپنی فالج زدہ ٹانگوں کے ساتھ کئی کئی کلو میٹر دور اسکول پڑھنے کے لیئے جاتا تھا ،وہ ایک رسمی مسلمان گھرانے میں پیدا ہو اتھا ،اسکول کے ساتھ اس نے محلے کی مسجد میں نورانی قاعدہ بھی پڑھنا شروع کر دیاتھا۔

(جاری ہے)

اس نے چوتھی جماعت سے اسکول چھوڑ کر قرآن حفظ کر نا شروع کر دیا ،وہ اس میدان میں بھی سب سے آگے تھا ،وہ سب سے پہلے سبق،سبقی اور منزل سنا کر فارغ ہو جاتا تھا ۔

وہ اپنی معذوری کی بنا پر سب سے الگ تھلگ رہتا تھا ،اس کے دوست اور ساتھی اکثر اسے نظر انداز کر دیتے تھے مگر وہ کبھی کسی سے گلہ شکوہ نہیں کرتا تھا ۔اسی اپنی معذوری کا احساس تھا لیکن اس نے کبھی اس احسا س کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا ،وہ دوست بہت کم بناتا تھا لیکن اس کی دوستی کا معیار واقعی حیران کن تھا ،مثلا جب وہ دیکھتا فلاں طالبعلم کی کلاس میں پو زیشن آئی ہے تو وہ اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیتا ،جب وہ دیکھتا فلاں طالبعلم سے مجھے کو ئی علمی فائدہ ہو سکتا ہے تو وہ اس کے قریب ہونا شروع کر دیتا،جب وہ دیکھتا فلاں طالبعلم اساتذہ کے ذیادہ قریب ہے تووہ اس کی طرف جھکنا شروع کر دیتا ۔

اسے خارجی مطالعہ کا بھی بہت شوق تھا ، اس کا حافظہ غضب کا تھا ،وہ ایک بار کو ئی چیز پڑھ لیتا تو وہ اس کے حافظے کا حصہ بن جاتی ۔اس نے صرف گیارہ ماہ میں قرآن حفظ کر کے سارے گاوٴں اور رشتہ داروں کو حیران کر دیا تھا ۔گاوٴں کی سطح پر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے مزید علم حاصل کرنے کا شوق چرایا ،اس نے نزدیکی شہر کے ایک نامور ادارے میں داخلہ لے لیا ،اب وہ ہر پندرہ دنوں کے بعد اپنے گھر آتا اور گھر سے کپڑے وغیرہ دھلا کر اگلے روز واپس چلا جاتا ،جب وہ واپس جاتا تو اس کی والدہ اسے رخصت کر نے کے لیئے باہر دروازے پے آ کر کھڑی ہو جاتی اور بڑی دیر تک اپنے ”پتر “کودیکھتی رہتی ،جب تانگہ چلنے لگتا اورفاصلہ بڑھنے لگتا تو ماں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے لیکن کچھ سوچنے کے بعد ماں خود ہی خاموش ہوجاتی۔

بیٹا ذہین تھا اس نے اپنا سفر جاری رکھا ،اساتذہ کی دعائیں اس کے ساتھ تھیں ،بلآخر اس نے اپنی تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس کے ساتھ منسلک ہو گیا ۔اللہ نے اسے مطالعے کا ذوق، تدریس کا ملکہ اور تفہیم کی قدرت عطا کی تھی ،اس نے درس قرآن دینا شروع کر دیا ،اللہ نے اس کے درس قرآن کو اتنی مقبولیت دی دنیا بھر میں بیٹھے لاکھوں لوگ انٹرنیٹ پر اس کا درس قرآن سننے کے لیئے بے تاب رہتے۔

کچھ ہی عرصے بعد اس معذور بچے کا شمار ملک کی اہم علمی شخصیات میں ہونا شروع ہو گیا،اس کی کتابی اولاد کی تعداد بیسیوں میں ہے ،اس کے خطبات اور دروس کی تعداد ہزاروں کے ہندسے کو چھوتی ہے ،لاکھوں کروڑوں لوگ اس کے روحانی پسماندگان ہو نے کے دعویدار ہیں ۔وہ ساری زندگی ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کر تا رہا،اس نے ظالم کے خلاف لکھا اور خوب لکھا ،وہ ساری زندگی مظلوم کی حمایت میں بولتا اور لکھتا رہا ،وہ جب بھی اپنے مظلوم بھائیوں پر ظلم ہوتا دیکھتا تو اس کا خون کھولنے لگتا ،وہ کہا کرتا تھا افسوس ظالم پر نہیں بلکہ تعجب مظلوم پرہے جو ہر دوسرے تیسرے دن لاشیں اٹھاتا ہے مگر اسے پھر بھی ہو ش نہیں آتا ،وہ ظالم کو للکارتا اور مظلوم کو جگاتا جگاتا خود اس ظلم کا شکا ر ہو گیا ،وہ جو دوسروں کی لاشیں دیکھ کر تڑپ اٹھتا تھا ایک دن خود نعش بن گیا،وہ جو مظلوم کو جگانے کے لیئے نکلا تھا خود مظلوم بن گیا۔

اس نے اپنی زندگی کی ابتدا زمین پر رینگنے سے کی تھی لیکن اپنی زندگی کی انتہا کو پہنچ کر وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا ،اس کی زندگی کے پہلے پچیس سالوں میں اسے کوئی جانتا تک نہ تھا لیکن آخری پچیس سالوں میں اس کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ لو گ اس کا نا م سن کر دیوانہ وار جمع ہو جاتے تھے ،اس نے جب اپنے گاوٴں سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا تواس کے اپنوں اور بیگانوں نے مل کر اسے دھکے دے کر نکا ل دیا تھا لیکن صرف دس پندرہ سال بعد وہی اپنے اور بیگانے اس کے سامنے دو زانوں بیٹھ کر اس کی بات سنتے تھے ،وہ پہلے بیس سال لوگوں کے رحم و کر م پر رہا لیکن آخری تیس سالوں میں لو گ اس کی خدمت کو سعادت سمجھنے لگے ،پہلے پچیس سال وہ لو گوں کا محتاج رہا اور آخری پچیس سال میں لوگ اس کے محتاج ہو گئے ۔

ہم دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی صرف بات کرتے ہیں لیکن اس نے ہمیں اس کا عملی نمونہ مہیا کیا ،اس کی آواز میں سوز بھی تھا اور ساز بھی،وہ جب بات کرتا تو پورے مجمعے پر سحر طاری کر دیتا،اسے قرآن سے عشق تھا،سارے زندگی قرآن سے جڑا رہا،اس کا ایمان بڑا پختہ تھا وہ کہا کرتا تھا جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آ سکتی اور جو باہر آنی ہے وہ قبر میں نہیں آ سکتی،اس کی آواز میں جادو تھا اور اس کی آواز دل کے تاروں سے جا کر ٹکراتی تھی،وہ بچوں ،بڑوں،مردو خواتین سب میں مقبول تھا،نہ جانے اس نے بیک وقت اتنی صلاحیتیں کیسے حاصل کر لیں،مفسر،مصنف،ادیب،خطیب ،مدرس، مبلغ اور نا جانے کیا کیا۔

وہ ہم جیسے طالبعلموں کے لیئے آئیڈیل تھا،ہم جو آٹھ سال لگانے کے بعد کسی ایک فن میں بھی مہارت نہیں حاصل کر پاتے وہ انہی آٹھ سالوں میں بیسیوں فن سیکھ کر ہم سب کو حیران کر گیا۔
بھٹو کی بیٹی اگر سیاست دان بن جائے یا ملک ریاض کا بیٹا بزنس مین ،وارث میر کا بیٹا اگرصحافی بن جائے یا کسی اخبار کے مالک کا بیٹا اخبار کا ایڈیٹر تو یہ کو ئی بڑی بات نہیں کیوں کہ یہ چیزیں انہیں وراثت میں ملتی ہیں ،ہاں اگرایک معمولی کسان کا ایک معذوربیٹا ”اسلم شیخوپوری“بن جائے تو یہ واقعی کمال کی بات ہے ،ایک ”دیہاتی “بچہ لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن اور بیسیوں کتابوں کا مصنف بن جائے تو یہ بات واقعی حیران کن ہے اوراگر ایک معذور انسان اپنے جنازے پر چالیس پچاس ہزار لوگوں کواکھٹا کر لے تو واقعی لگتا ہے یہ کو ئی عظیم شخصیت تھی ۔

وہ ہم سب کے لیئے رول ماڈل تھے ،انہوں نے تدریس بھی کی اور تجارت بھی ،امام بھی رہے اور خطیب بھی ،مفسر بھی کہلائے اور مصنف بھی ،واعظ بھی غضب کے تھے اور لکھاری بھی کمال کے ،ظالم کو بھی للکارا اور مظلوم کے دست و بازو بھی بنے ، دین بھی کمایا اور دنیا بھی ۔۔آج بھی ان کا خوبصورت اور نورانی چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو آنکھیں بلا اختیار چھلک جاتی ہیں ،وہ واقعی عظیم شخص تھے ،ان کی شہادت ایک شخص کی مو ت نہیں تھی بلکہ علم کا ایک سمندر تھا جو سوکھ گیا ،زمانے نے پچاس سال ان کی پرورش کی ،علم کی گود نے پچاس سال انہیں جھولا جھلایا اور جب وہ اس علم اور روحانیت کو تقسیم کر نے کے لیئے میدان میں آئے ہم نے ایک لمحے میں انہیں کھو دیا ۔

ز مانہ پچاس سال کی محنت کے بعدہمیں ایک قیمتی ہیرا دیتا ہے اور ہم اسے کھوتے ہو ئے ایک منٹ بھی نہیں لگاتے ،علم کی گود پچاس سالہ پرورش کے بعد ہمیں ایک علمی شخصیت عطا کرتی ہے اور ہم چند لمحوں میں اسے کھو کر دوباہ نارمل ہو جاتے ہیں ۔ہم کتنے بدقسمت لوگ ہیں ، کتنے بدقسمت

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :