ایک غیر ملکی سیاح کا سفرنامئہ پاکستان ۔ قسط نمبر1

اتوار 2 جولائی 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں ایئر پورٹ پر اترا تو درجہ حرارت 45ڈگری تک پہنچ چکا تھا۔ یہ گرمیوں کی ایک گرم دوپہر تھی ، سورج سوا نیزے پر تھا ، انسان اپنے گھروں میں محبوس تھے ، چرند پرند گھنے درختوں کی الجھی ٹہنیوں پر بیٹھے سورج کی تمازت کم ہونے کا انتظا ر کر رہے تھے ۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا ، سڑکیں سنسان پڑی تھیں ، دکانیں بند تھیں ، دفاتر کی رونق ماند پڑ گئی تھی ، ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی اور لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔

میں تپتی دوپہر میں ایئر پورٹ پر اترا ، گرم ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے ، لو چہرے کو جھلسائے جاتی تھی ، میں نے بڑی مشکل سے اپنے چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا ۔ میرا حال بے حال تھا اور اسی بے حالی میں ہم ایئر پورٹ سے باہر نکل رہے تھے ۔ ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہوئے اس وقت حیرت کی انتہاء نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہیں ،کسی نے بھی لائن کی پابندی نہیں لوگ ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہو رہے تھے، ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے اور بعض نے تو اونچی آواز میں ہوٹنگ بھی کی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے باقاعدہ لاتوں اور مکوں کی پریکٹس بھی ہوئی۔

(جاری ہے)

میں خدا خدا کر کے ایئر پورٹ سے باہر نکلا، میرے لیے یہ ملک اجنبی تھا ، میں زندگی میں پہلی بار پاکستان آیا تھا ، میرے ذہن میں پاکستان کا جو تصور تھا اور میں نے پاکستان کے بارے میں اپنا جو امیج بنا رکھا تھا وہ ایک ایسے ملک کا تھا جو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت تھی اور اس اعتبار سے مجھے پاکستان پر فخر بھی تھا۔ پاکستان کی سیاحت میرا ایک دیرینہ خواب تھا اور یہ فیصلہ میں نے آج سے بیس سال پہلے کیا تھا ۔

میں ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو یہ جگہ میرے لیے بالکل اجنبی تھی ، میں کسی ہوٹل کی تلاش میں تھا ، میں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے بات کی اس نے بڑی خشک مزاجی سے مجھے لے جانے کی حامی بھر لی ، شاید یہ اوبر یا کریم نام سے ٹیکسی سروس تھی اس سروس کا طریقہ کار یہ تھا کہ یہ کلو میٹر کے حساب سے کرایہ چارج کرتی تھی ، آپ جتنے کلومیٹر سفر طے کرتے اس کے حساب سے آپ سے کرایہ وصول کیا جاتا ۔

میں نے شہر کے ایک معروف ہوٹل تک جانے کی بات کی اور ڈرائیورگاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔ آدھے گھنٹے بعد ہم ہوٹل کے مین گیٹ کے سامنے پہنچ گئے ، میں نے کرایہ پوچھا توایک بار پھر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ ڈرائیور جو کرایہ بتا رہا تھا وہ اس سے کہیں ذیادہ تھا جو اصل میں ہونا چاہئے تھا، میں نے اپنا موبائل آن کر کے ڈرائیور کو بتایا کہ دیکھیں ایئر پورٹ سے اس ہوٹل تک کا سفر اتنے کلو میٹر بنتا ہے ، ڈرائیور نے گاڑی کے میٹر کی طرف اشارہ کیا کہ جناب یہ دیکھیں آپ اتنے کلو میٹر سفر طے کر کے آئے ہیں ،بعد میں مجھ پر راز کھلا کہ ڈرائیور جان بوجھ کر مختصر راستے کو چھوڑ کر طویل راستے سے آیا تاکہ کرایہ ذیادہ وصول کر سکے ۔


ہوٹل میں داخل ہونے کے لیے میری دوبار تلاشی لی گئی لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس تلاشی کے دوران میرے سامان میں موجود قیمتی گھڑی کہاں چلی گئی۔ میں استقبالیے پر پہنچا تو ایک بیزار سے صاحب ٹیبل پر ٹانگیں پھیلائے اپنی دنیا میں مست تھے ، میں تقریبا دو منٹ تک کھڑا رہا کہ شاید وہ صاحب مصروف ہیں لیکن کافی دیر کے باوجود جب ان صاحب نے مجھے کوئی توجہ نہیں ، میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ مجھے یہاں کمرہ مل سکتا ہے ۔

موصوف نے بڑی حقارت سے میری طرف دیکھا اور کرخت لہجے میں بولے ” کوئی کمرہ خالی نہیں لیکن اگر آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو ہم کچھ کر لیں گے “ میں نے وضاحت چاہی تو وہ بولے ” مطلب یہ ہے کہ اگر آپ مجھے کچھ ایکسٹرا پے کر دیں تو میں آپ کے لیے کمرے کی گنجائش پیدا کر لوں گا“ مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ بندہ غلط بیانی کر رہا ہے ، میں مجبور تھا میں نے کمرے کے چارجز کے علاوہ اسے ایکسٹرا چارجز بھی ادا کیئے ۔

میں کمرے میں پہنچا تو جسم تھکن سے چور تھا ، میں گزشتہ سولہ گھنٹوں سے سفر میں تھا ، میں نے انٹر کام پر نمبر ملا کر چائے اور کھانے کا آرڈر دیا، میں نے تازہ دم ہو کر نماز پڑھی اور اتنے میں چائے اور کھانا آگیا۔ میں نے چائے کا ایک گھونٹ بھر ااور کپ نیچے رکھ دیا ، یہ دودھ سے بنی چائے نہیں تھی بلکہ ٹی وائٹنر سے چائے بنائی گئی تھی میں نے ویٹر کوآگاہ کیا لیکن میری بات ہوا میں اڑا دی گئی ۔

میں کھانا کھانے کے لیے آگے بڑھا لیکن دو چار نوالوں کے بعد میں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ شدید بھوک کے باوجود میں مزید کھانا کھانے کی ہمت نہ کر سکا۔ میں سونے کے لیے لیٹا لیکن سو نہیں سکا کیونکہ کمرے کا اے سی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا اورمجھ سے جو کرایہ چارج کیا گیا وہ اے سی والے کمروں سے بھی ذیادہ تھا ۔خیر میں نے رات بڑی مشکل سے گزاری ۔

اگلی صبح میں تازہ دم ہو کر شہر میں گھومنے کے لیے نکل کھڑ اہوا۔ میرے لیے یہ ایک نئی دنیا تھی ، ہر طرف انسان ہی انسان تھے ، سڑکوں پرہر طرف سر ہی سر دکھائی دیتے تھے ، بے ہنگم ٹریفک، گاڑیوں کا شور ، کہیں میوزک اور کہیں کان پھاڑتے ہارن کی آواز۔ میں نے لوگوں سے بات چیت کرنا چاہی لیکن یہاں مجھے ہر کوئی چڑ چڑا دکھائی دیا، جس سے بھی بات کرو اندر سے غصے سے بھرا ہوا نکلتا۔

میں نے یہاں کسی چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی،میں جس دکاندار سے بھی بات کرتا تو وہ پہلے مجھے گھورتا اور پھر میری بات سنتا۔ مجھے ایک بنک میں جانے کا اتفاق ہوا ، بینکوں میں عموما خوش اخلاق لوگ بٹھائے جاتے ہیں لیکن مجھے یہاں بھی کسی چہرے پر مسکراہٹ نظر نہیں آئی۔میں شہر کے جس کونے میں بھی گیا لوگ اندھا دھند بھاگ رہے تھے ، جیسے ان کے پیچھے کو ئی فوج لگی ہو ، ڈرائیور گاڑی ایسے چلاتے تھے جیسے انہیں کسی جگہ پہنچ کر آگ بجھانی ہے ، مجھے زندگی میں پہلی بارکسی لوکل ٹرانسپورٹ پر بیٹھ کر ڈر لگا۔

راستے میں جگہ جگہ پر بیرئیر لگے تھے ، جگہ جگہ پولیس اہلکار بھی کھڑے دکھائی دیئے مجھے لگا جیسی کسی جنگ زدہ علاقے میں آ گیا ہوں ۔ سڑکیں تنگ تھیں ا ورٹریفک بہت ذیادہ ، گاڑیاں کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسی رہتی تھیں ۔ اگر کوئی وی آئی پی موومنٹ ہوتی تو آدھا گھنٹہ پہلے ہی سڑکیں بند کر دی جاتیں ، میں نے اپنی آنکھوں سے ایک ایمبولینس کو دیکھا جو ٹریفک میں پھنسی چیخ چھنگاڑ رہی تھی لیکن کوئی اسے راستہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا ۔

بعض جگہوں پر لوگوں نے سڑکیں بلاک کر رکھی تھیں ، مجھے کسی نے بتایا کہ یہاں کوئی بھی کسی بھی وقت سڑک بلاک کر کے لاکھوں شہریوں کو تکلیف میں مبتلاء کر سکتا ہے ۔ میں سڑک کراس کرنے کے لیے تقریبا پانچ منٹ تک تگ و دو کرتا رہا لیکن میں ناکام رہا ، میں جونہی آگے بڑھتا ایک تیز رفتار گاڑی شوں کر کے میرے قریب سے گزر جاتی ،ایک اسی سالہ بزرگ بھی میرے ساتھ آکر کھڑے ہوگئے شاید وہ بھی سڑک کراس کرنا چاہتے تھے، میں نے سوچا کہ شایداب انسانیت کے احترام اور اس بزرگ کی وجہ سے کوئی گاڑی والا رفتار آہستہ کر کے ہمیں گزرنے کا موقعہ دے دے لیکن میرا خیال غلط ثابت ہوا۔

شہر کی اہم جگہوں پر بھکاریوں کی لمبی قطاریں تھیں اور فٹ پاتھ پر انہوں نے قبضہ کیا ہوا تھا ۔میں شہر میں جس جگہ بھی گیا مجھے بھکاریوں کے غول ہر جگہ دکھائی دیئے۔ ( سفر نامہ ابھی جاری ہے )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :