پشو پتی ناتھ مندر ہندووٴں کا کعبہ!

پیر 3 ستمبر 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ بڑا عجیب اور خوفناک منظر تھا ، دریا کے کنارے بنے شمشان گھاٹ پر ایک نعش جلائی جا رہی تھی،یہ شمشان گھاٹ مندر کے بالکل قریب تھا اس سے ثابت ہوتا تھا جو نعش جلائے جا رہی ہے کسی بڑی شخصیت کی ہے ۔نعش کو جلانے کے لیے لکڑیوں کو ایک خاص انداز میں ترتیب دیا گیا تھا،نیچے لکڑیاں تھی ، درمیان میں نعش کو رکھا گیا تھا اوپر پھر لکڑیاں تھیں اور آ گ جلانے کے لیے کچھ مادوں کا استعمال کیا گیا تھا ۔

ہمارے پہنچنے سے کچھ ہی دیر قبل نعش کو آگ لگائی گئی تھی ، فضا میں دھواں اور انسانی گوشت جلنے کی بدبو تھی جسے برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔بدبو سے ہمارا دم گھٹ رہا تھا لیکن مقامی لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔نعش کے لواحقین ارد گرد بیٹھے تھے اور ایک مزدور وقفے وقفے سے لکڑیوں کو بدل کر آگ مزید تیز کر دیتا تھا ۔

(جاری ہے)


جولائی کی کڑکتی دھوپ میں اتنی تیز آگ اللہ کی پناہ، میں یہ منظر دیکھتے ہی دل ہی دل میں سجدہ ریز ہو گیااور اللہ کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں دین حق کو اپنانے کی توفیق دی اور ہمیں ضلالت و گمراہی کی دلدل سے دور رکھا۔

اگر نزدیک کوئی مسجد ہوتی تو میں جا کر دو نفل پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرتا کہ اس نے ہمیں آخری نبی کا امتی بنایا اور ہمیں اسلام جیسی نعمت عطا کی ۔گائیڈ نے بتایا جب میت جل جاتی ہے تو اس کی راکھ دریائے بھاگ متی میں بہا دی جاتی ہے اور آگے چل کر یہ راکھ گنگا اور جمنا میں جا گرتی ہے ، یہ دونوں دریاں ہندووٴں کے نزدیک بہت مقدس ہیں اور اس میں راکھ کا پہنچ جانا ان کے لیے باعث اطمینان ہے۔


ہندووٴں کے نزدیک اس مندر کی اہمیت کا انداز ہ آپ ان دوواقعات سے لگا سکتے ہیں۔پہلا واقعہ اندرا گاندھی کا ہے، اندرا گاندھی انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی بیٹی تھی۔ جواہر لعل نہرو کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اندرا کو کم عمری میں ہی ا پنی بیمار ماں کا خیال رکھنا پڑا جس کی وجہ سے وہ باقاعدگی سے سکول، کالج اور یونیورسٹی نہ جا سکی۔

ماں کی وفات کے بعد اندر ا آکسفورڈ گئی مگرنہرو کی سیاسی سرگرمیوں کی بدولت اسے تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی واپس لوٹنا پڑا، بعد میں جب وہ وزیر اعظم بنی تو آکسفورڈ نے اسے اعزازی ڈگری سے نوازا۔آکسفورڈ میں پڑھائی کے دوران اندرا کو گجرات کے ایک پارسی نوجوان فیروز گاندھی سے پیار ہوگیا ، اندرا نے والد کو شادی کے ارادے سے آگاہ کیا اور کچھ پس و پیش کے بعد نہرواس شادی کے لیے تیار ہو گئے۔

اس شادی کے بعد اندرا، اندرا نہرو سے اندرا گاندھی بن گئی، لوگ گاندھی کے لاحقے کو مہاتما گاندھی سے جو ڑتے ہیں جو صحیح نہیں۔
اندرا گاندھی نے نہروکے وزیر اعظم بننے کے بعد سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا، نہرو کی زندگی میں ہی وہ کانگریس کی لیڈر بن گئی تھی اور ان کے مرنے کے بعد سب سے طویل عرصے تک ہندوستان کی وزیر اعظم رہی۔ ایک پارسی فیروز گاندھی سے شادی کرنے اور اس کے نام کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگانے کے باوجود ہندوستان کے لوگوں نے انھیں بار بار اپنی وزیر اعظم منتخب کیا لیکن سرحد کے اس پارنیپال میں پشو پتی ناتھ مندر کے ہندو پروہتوں نے انھیں معاف نہیں کیا۔


 جب اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنی اور انہوں نے پشوپتی ناتھ مندر میں جا نے کی خواہش کا اظہار کیا تو مندرانتظامیہ نے انہیں اجازت نہیں دی۔انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک غیر ہندو سے شادی کر کے سنگین غلطی کی مرتکب ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنادھرم بھرشٹ کر لیا ہے لہذا انہیں مند رمیں داخلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
آپ جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اور قائد اعظم کی بیٹی دینا جناح میں کمال مماثلت دیکھیں کہ دونوں کو ایک جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

دینا جناح قائد اعظم محمد علی جناح کی پارسی بیوی سے اکلوتی اولاد تھی، محمد علی جناح سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اپنی بیوی اور بیٹی کوکچھ ذیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے لہذا ماں اور بیٹی یہ بے اعتنائی ذیادہ دیر برداشت نہ کرسکے،بیوی کا انتقال ہو گیا اوربیٹی ماں کی وفات کے بعد ممبئی سے لند ن چلی گئی اور دوران تعلیم ایک پارسی نوجوان سے پیار ہوگیا۔

بعد میں اسی نوجوان سے شادی ہوئی جس سے وہ دینا جناح سے دینا واڈیا بن گئی۔ یہ تقسیم ہندو کے دو اہم لیڈروں کی بیٹیوں کی کہانی ہے۔
دوسرا واقعہ نریندر سنگھ مودی کا ہے ، مودی جب وزیر اعظم منتخب ہو ئے تو کچھ ہی دن بعدہاتھ جوڑنے کے لیے نیپال کے اس پشوپتی ناتھ مندر میں جا پہنچے۔وہاں ہندوانہ رسم و رواج اور پوجا پاٹ کے بعد جب نکلے تو ٹویٹ کیا کہ میں خود کو نہایت خوش بخت محسوس کر رہا ہوں۔

اس خوشی کے اظہار میں انہوں نے4 کروڑکی صندل اور 9لاکھ کا گھی دان اس مندر کی نذرکیا۔ وہ جب مندر سے نکلے تو ان کے گلے میں رودراکش کی مالا اور ماتھے پر چندن کا تلک ایسے سجا تھا گویا موصوف دہلی کے بجائے سیدھے کیلاش پربت کوچ کرنے والے ہیں۔ان دو واقعات سے آ پ ہندووٴں کے نزدیک اس مندر کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ستمبر اوراکتوبر کے مہینے میں اس مندر پر ایک بہت بڑا تہوار منایا جا تا ہے جسے مقامی زبان میں تیج کہتے ہیں ۔

یہ تہوار عورت کی محبت اور اس کی وفا کا اعتراف ہے ۔مہا بھارت کے مطابق پاربتی دیوی ، شیوا دیوتا کی محبت میں گرفتار ہو گئیں اور کئی با ر اس کے سامنے اظہار محبت کیا۔ شیوا جی کو پاربتی دیوی کے جذبات کی کوئی قدر نہیں تھی ، وہ اپنی ہی زندگی میں محوتھے اور پاربتی کی محبت کا جواب دینے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ایک دن شیوا جی گھربار اور پاربتی کو چھوڑ کر تذکیہ نفس کے لیے ہمالیہ کے پہاڑوں کی طرف نکل پڑے ، پاربتی نے بھی شیوا کو پانے کا عہد کر رکھا تھا ، اس نے کھانا پینا چھوڑ ااور گھر سے نکل پڑی۔

اب پاربتی کی زندگی ہی بدل گئی تھی،اس نے شیوا سے بھی بڑے دیوتاوٴں سے لو لگا لی اور اپنی مراد ان کے سامنے رکھی ۔آخر ایک دن پاربتی کی آرزوئیں رنگ لے آئیں اور شیوا جی ہمالیہ کے پہاڑوں سے واپس پلٹ آئے ، شیوا جی نے پاربتی کی محبت کا جواب اس سے بڑھ کر دیا اور دونوں ایک ہو گئے ۔ اب ہندو عورتیں ہر سا ل اس بندھن کی یاد میں تہورا مناتی ہیں جس میں پہلے روز منتیں مانی جاتی ہیں ، دوسرے روز کھانے پینے سے اجتناب کیا جاتا ہے اور تیسرے دن عورتیں خوب سجتی سنورتی ہیں اور پشو پتی ناتھ مندر میں شیوا جی اور پاربتی کے در پر حاضری دے کر تجدید محبت کا عہد کیا جاتا ہے ۔

خواتین اپنے ہاتھ سے مردوں کو کھانا کھلاتی ہیں ، ان کے پاوٴں دھو کر اس پانی سے اپنی مانگ بھرتی ہیں اور پھر سب مل کر دریائے بھاگ متی کے کنارے چہل قدمی کرتے ہیں ۔
ہم تقریبا ایک گھنٹہ یہاں گھومتے رہے ، دوستوں نے تصاویر بنوائی ، مندر کے مختلف حصوں میں گھومے ، دریائے بھاگ متی کے کنارے چہل قدمی کی اور اپنے مسلمان ہونے پر خدا کے حضور دل ہی دل میں سجدہ ریز ہو گئے کہ اس نے ہمیں دین حق کو اپنانے کی توفیق دی۔

جتنا بڑا اور وسیع یہ رقبہ ہے یہاں گھومنے کے لیے ایک گھنٹہ ناکافی تھا لیکن ہماری اگلی مزل طے تھی۔ ہمیں کھٹمنڈو میں بدھ مت کے سب سے بڑے سٹوپا بدھ ناتھ اسٹوپا جانا تھا ، سب دوست چار بجے بسوں کے پاس پہنچ چکے تھے۔ ہماری اگلی منزل بدھ ناتھ اسٹوپا تھی اور ٹھیک پانچ بجے ہم بدھ ناتھ اسٹوپا پہنچ چکے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :