مذہبی فکراورنئے سوالات!

اتوار 4 نومبر 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

مذہبی فکرکو اس وقت جو سوالات اور چیلنجز درپیش ہیں یہ کوئی نئے نہیں بلکہ ہماری روایت کو ان سے واسطہ رہا ہے ، ان سوالات اور چیلنجز کا موضوع نیا ہو سکتا ہے لیکن اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ سوالات نئے نہیں ۔ یہ سوالات ذیادہ تر کلامی نوعیت کے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ ساری اسلامی فکر کو درپیش ہیں ۔ ان سوالات کا ایک اہم دائرہ خدا کے امیج اور اس کی صفات کے بارے میں ہے ۔

خدا کی ذات کے بارے میں سوالات کا سامنا ہماری روایت کو بھی تھا لیکن تب سوالات کی نوعیت مختلف تھی لیکن آج کی جدید سائنس اور علوم وفنون کی ترقی نے ان سوالات کو ذیادہ ایڈوانس شکل میں پیش کر دیا ہے ۔
 نزول وحی کے زمانے میں جب یہ سب کچھ بیان ہورہا تھاتب فوری نوعیت کا کوئی سوال نہیں اٹھا کہ اس وقت لوگوں کی ترجیحات کچھ اور تھیں، مخالفین کی کوششیں یہ تھیں کہ اس ”نئے دین “ کو سرے سے ماننے سے ہی انکار کر دیا جائے اور کسی طرح اس فتنے کو جڑ سے اکھیڑ دیا جائے اور جو لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے انہیں ان سوالات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔

(جاری ہے)

یہ سوالات اور بحثیں تب اٹھیں جب اسلام حجاز سے نکل کر عجم میں آیا اور اسے عجمی اقوام سے واسطہ پڑا ۔ عجمی دنیا میں جہاں جہاں اسلام پہنچا یہ وہ خطے تھے جہاں ایک طرف یونانی فلسفے اور دوسری طرف عیسائی، ہندو اور مجوسی فلسفے کا عروج تھا ۔ ان مذاہب کا فلسفہ اور تعلیمات ان کے اپنے تصورات پر قائم تھیں ، اسلام کاجب اس فلسفے اور تصورات سے ٹکراوٴ ہوا تو یہ بحثیں اور سوالات پیدا ہوئے ۔


 ان مذاہب کے ماننے والوں کا خدا کے بارے میں اپنا امیج تھا لیکن اسلام نے آکرجب اس تصورکو رد کر کیا تو سوالات پیدا ہوئے ،بنیادی سوالات یہ تھے کہ خدا کا وجود کیسا ہے ؟اس کی ذات مجسم ہے یا منزہ ؟ اگر مجسم ہے تو اس کی کیا شکل ہو سکتی ہے ، اگر منزہ ہے تو ان صفات کا کیا کیا جائے جو قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں ؟ یہ سارے سوالات اس وقت ہماری روایت کو درپیش تھے اور آج یہی سوالات ہمیں بھی درپیش ہیں لیکن اب ان کی نوعیت ذیادہ ایڈوانس ہو گئی ہے ، بایں طور کہ مغربی فلسفے نے ایسے کسی خدا کو ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے جو کائنات اور اس کے نظام کو چلا رہا ہے ۔


مغربی فلسفے کا کہنا ہے کہ یہ کائنات اور سارا نظام چند متعین قوانین کے تحت چل رہا ہے اگر ان قوانین کو دریافت کر لیا جائے تو انسان اس کائنات اور اس کے نظام کو اپنے کنٹرول میں لے سکتا ہے ۔گویا ہماری روایت کو جو سوالات درپیش تھے اس میں خدا کے وجو د کا انکار نہیں تھا لیکن اب سرے سے خدا کے وجود کا ہی انکار کر دیا گیاہے ۔ ایک اور نیا سوال جو سامنے آیا وہ یہ کہ خدا مذکر ہے یا موٴنث ، اگر چہ خدا صنفی تصورات سے بہت ماوراء ہے لیکن سوالات تو بہر حال اٹھ رہے ہیں ۔

یہ سوال مغرب میں اٹھنے والی تحریک فیمینزم کا نتیجہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ عورت کسی طور مرد سے کم نہیں اور اسے ہر حال میں مرد کے برابر اختیارات حاصل ہونے چاہییں ۔
ہماری علمی روایت کو جب ان سوالات کا سامنا کرنا پڑا تو ا س قوت موجود علمی حلقوں کی طرف سے اپنے انداز میں ان سوالات کے جوابات پیش کیئے گئے۔ متکلمین نے یہ پوزیشن اختیار کی کہ یہ سب مجاز اور استعار ے کے طور پر ہے ، خدا کیسا ہے اور اس کی صفات کے کیا معنی ہیں اس کی حقیقت کا علم صرف اللہ کوہے ،باقی یہ سوال کہ اگر حقیقت کچھ اور ہے تو اللہ نے مجاز اور استعارے کا یہ طریقہ کیوں اختیار کیا تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اللہ نے انسانی فہم کو بنیاد بنا کروہ طریقہ اختیار کیا جو انسانوں کے لیے مانوس تھا ، یہ انسانی فہم کا عجز ہے کہ وہ پہلے سے مانوس چیزوں کے سوا دیگر تصورات کو سمجھنے کی قدرت نہیں رکھتا
محدثین نے یہ پوزیشن اختیار کی کہ قرآن و سنت میں مذکور صفات الہیٰ مجاز و استعارے کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت کے طور پر استعمال ہوئی ہیں لیکن ان کے مصداق میں فرق ہے ۔

یعنی اگر اللہ نے قرآن میں اپنے ہاتھ ، پنڈلی، کرسی اور دیگر صفات کا ذکر کیا ہے تو اس سے انسانی ہاتھ، پنڈلی اور کرسی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد وہ صفات ہیں جو اللہ کے شایان شان ہیں ۔ مثلا کرسی سے مراد اس کی حکومت،ا قتدار ، طاقت اورا ختیارات ہیں اسی طرح دیگر صفات کا بھی یہی معنی اور مفہوم ہے ۔
متکلمین کی طرح محدثین کو بھی اس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر خدا ویسا نہیں جیسا قرآن میں بیان ہوا ہے تو پھر اس طرز بیان اور اس اسلوب کو کیوں اختیار کیا گیا ۔

اس کا جواب یہ دیا گیا کہ خدا کے وجوداور اس کی صفات کو سمجھنے کے لیے انسانی فہم کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ اس کی بساط ہی اتنی ہے ۔ یہ انسانی زبان اور تصور کی محدودیت ہے کہ اللہ کو یہ اسلوب اختیار کرنا پڑا ، انسان کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ انہی ذرائع سے ہوتا ہے اگر ان ذرائع سے ماوراء ہو کر بات کی جاتی تو انسانی فہم اس کوسمجھنے سے قاصر ہو جاتا ، لہذا ہم خدا کو انسانی تصورات کے دائرے میں ہی رہ کر سمجھ سکتے تھے اس لیے اللہ نے یہ اسلوب اختیار کیا ۔


 نزول وحی کے وقت تانیث کے بارے میں انسانی فہم کا جو تصور تھا وہ کچھ مناسب نہیں تھا، بیٹیوں کو عیب اور عورت کو نحوست کی علامت سمجھا جاتا تھا اس لیے اس وقت تانیث کے صیغے کا استعمال بات کو غیر ضروری مباحث میں الجھانے کا باعث بنتا اس لیے اس بحث سے اجتناب کیا گیا۔اس آخری سوال کا سامنا ہماری روایت کو نہیں تھا ،ا گر روایت میں کہیں یہ سوال پیدا بھی ہوا تو اسے ا تنی اہمیت نہیں دی گئی۔

یہ سوال ذیادہ شدت سے دو صدیاں قبل اس وقت سامنے آیا جب مغرب میں تحریک فیمینزم نے زور پکڑا ۔اگرچہ یہ سوال اپنی نوعیت کے لحاظ سے غیر منطقی اور غیر مناسب ہے لیکن بہر حال یہ ایک سوال ہے اور جس کا ہمیں سامنا ہے اور ہمیں علمی بنیادوں اور منطقی انداز میں اس کا رد کرنا چاہئے کہ یہ اس دور اور فکر کا تقاضا ہے ۔
اسلامی علمی روایت کو ایک یہ مسئلہ درپیش ہواکہ قرآن کا اندازبیان ، اسلوب اور اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے دلائل کا انداز خطابی نوعیت کا تھا جبکہ دیگر مذاہب اور اور فلسفوں میں منطقی انداز غالب تھا۔

ہماری علمی روایت کو جب ان مذاہب اور فلسفوں سے واسطہ پڑا تو اسے ایک نئے پیرا ڈائم اور فریم ورک کی ضرورت پیش آئی اور اسے منطقی انداز اور اسلوب اختیار کرنا پڑا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :