مذہب کا المیہ !

بدھ 19 جون 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

مذہب اپنی تاریخ میں اتنا سطحی اور لاوارث کبھی نہیں ہواتھا جتنا آج ہے ، ہر دوسرا فرد مذہب کے لیے آزمائش ہے اور یہ آزمائش مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہوتی ہے ،ایک صورت مذہب کا سر ے سے انکارہے،دوسری صورت میں مذہب کا وجودتو تسلیم مگر اس کی اہمیت سے انکار، تیسری صورت میں مذہب کی من مانی تشریحات اور چھوتی صورت میں خود اہل مذہب ،مذہب کے لیے آزمائش بن چکے ہیں ۔


پہلی اور دوسری صورت محض ضد وعناد کا شاخسانہ ہے اس لیے یہ موضوع بحث نہیں، تیسری صورت کے شرکاء پندار علم کا شکار ہو جاتے ہیں کہ مذہب اور دین کا جو فہم مجھے حاصل ہوا پوری اسلامی روایت میں ایسے نابغہ پیدا نہ ہو سکے ، میرا فہم زمان و مکان یکتا اور لاجواب ہے ۔ دین کی جو تشریح میں کروں گا وہی حرف آخر اور آئین و قانون کا حصہ بن جانے کے لائق ہے ۔

(جاری ہے)

یہ زعم عموما ان شارحین کوہوتا ہے جو باقاعدہ کسی عالم دین کے پاس بیٹھ کر تحصیل علم نہیں کرتے، جن کا مبلغ علم چند تفاسیر ، کتب سیرت اور متجددین ومستشرقین کی لکھی کتب پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ان میں اکثریت ایسوں کی ہے جو کسی سرکاری محکمے سے ریٹائرڈ ہیں، مثلاریٹائرڈجج، جرنیل، ڈاکٹر یا پروفیسر صاحبان۔ ا ن کا جذبہ صادق اور نیت درست سہی مگر نیت تو ہمارے سلیکٹڈ چیف ایگزیکٹو کی بھی درست ہے ، نتائج البتہ صرف نیت درست ہونے سے حاصل نہیں ہوتے۔


دین کا صحیح اور درست فہم محض چند کتب پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا ، اس کے لیے باقاعدہ کسی صاحب علم ،مذہبی اصطلاح میں کسی عالم کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنا پڑتے ہیں ،دینی علم پوری ایک روایت کا متقاضی ہے جس کا فیض محض کتب پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا ۔ نبی اکرم نے جبرائیل کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے امت کو طریقہ بتا دیا ۔اگر محض ذاتی مطالعے سے دین کا صحیح فہم حاصل ہوتا تو صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین جو اہل زبان بھی تھے سینکڑوں میل کی مسافت طے نہ کرتے ۔

یہ دین پر ٹھیکیداری نہیں بلکہ دین کی درست تفہیم کا معاملہ ہے۔دنیا کے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبے کی بھی کچھ بنیادی ریکوائرمنٹس ہیں جنہیں پورا کیئے بغیر دین کی تشریح کا منصب حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ اور اگر کوئی بزور یہ منصب حاصل کرنا چاہے تو اپنی کج فکری کے باعث امت کے لیے باعث انتشارو افتراق بن جاتا ہے ،جیسے محترم جاوید احمد غامدی اور انجینئر محمد علی مرزا ۔


چوتھی صورت میں خود اہل مذہب ، مذہب کے لیے آزمائش بن چکے ہیں ، ایک امام مسجد جو روایتی طور پر سند یافتہ ہے وہ اپنے مقتدیوں کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہا ، جس طرح ایک صحافی کے لیے ضروری ہے کہ اسے ہرشعبے کی چیدہ چیدہ معلومات ہونی چا ہییں یہی بات ایک عالم اور امام مسجد کے لیے بھی لازم ہے ، مقتدیوں میں ہر شعبے اور ہر ذہنی سطح کے افراد موجود ہوتے ہیں، ان کی راہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ امام ان کی علمی سطح اور ذہنی پس منظر سے آگاہ ہو ۔

زمانے کانباض اور محاورہ شناس ہو ۔لیکن یہاں صورتحال برعکس ہے، مقتدی ذیادہ تعلیم یافتہ، وسیع الذہن اور مطالعہ و مشاہدہ کا حامل ہے جبکہ امام کا علم ایک مخصوص رخ لیے ہوئے ایک خاص حد تک محدود ۔دینی علم تو ہے مگراس علم کو اپنے زمان و مکان پر اپلائی کرنے کی صلاحیت مفقود، اس علم کو زمانے کے محاورے کے مطابق بیان کرنے اور اپنے عصر سے ہم آہنگ کرنے کا سلیقہ عنقا ۔

مقتدی اگر کبھی مسئلہ پوچھ لے تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ استثنی موجود مگرامر واقعہ یہی ہے ۔
آج مجموعی طور پر اہل مذہب کا رویہ سطحیت کا شاخسانہ ہے ،اکڈیمک سطح پرگہرائی و گیرائی ہے نہ رویوں میں سنجیدگی ۔مسائل کا ادراک تو سرے سے موجود ہی نہیں ، جب مسائل کا ادراک نہیں تو انہیں رسپانڈ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔مسائل کا ادراک رویوں میں سنجیدگی سے جنم لیتا ہے اور رویوں میں سنجیدگی مطالعہ و مشاہدہ اور فکر و احساس سے جنم لیتی ہے جبکہ اہل مذہب ان صفات سے الحمدللہ تہی دست ہیں ۔

محض ظاہری سرگرمیوں ،عامیانہ کورسز،اکڈیمک اور تحقیق سے عاری مطالعہ ومشاہدہ سے سمجھا یہ جا رہا ہے کہ اس طرح مسائل حل ہو جائیں گے ، حاملین مذہب کا یہ رویہ خود مذہب کی سر بازار رسوائی اور بے قدری کا باعث بن رہا ہے ۔
 مذہبی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کی سرگرمیوں کو دیکھ کر شدید حیرت ہوتی ہے ، اس پر مستزاد کہ ذمہ داران بھی مناسب راہنمائی کا اہتمام نہیں کر رہے۔

سنجیدہ مباحث،تحقیقی کتب اور اکڈیمک مطالعہ کی بجائے سطحیات پر وقت ضائع کیا جا رہا ہے،وہ سرگرمیاں اور تجربات جن سے بہت پہلے گزر جانا چاہیئے تھا وہ اب سر انجام دی جا رہی ہیں ۔ کہیں واٹس ایپ پر کالم نگاری کورسز کروائے جا رہے ہیں اور کہیں فیس بک پر ، چند افراد نے مل کر ایک چھوٹا سا گروپ بنایا تو اسے انجمن کا نام دے دیا ، دو چار افراد مل کر بیٹھے تو رائٹر فورمز بن گئے ، فیس بک اور یوٹیوب نے لائیو ویڈیوز کاآپشن دیاتو بغیر کسی تیاری اور بغیر کسی موضوع کے لائیو ویڈیوز نشر کرنا شروع کر دیں ۔

بغیر کسی سوچ اور حکمت عملی کے ماہنامے شروع کر دیئے جن کی ماہانہ اشاعت دو چار سو سے ذیادہ نہیں اور یہ بھی فری تقسیم ہوتے ہیں۔برکت کے طور پر ان میں اکابرین کے ارشادات شائع کر کے ان کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے اور بس ۔سالانہ چھٹیوں میں تو ایسے ایسے کورسز متعارف ہوتے ہیں کہ بندہ اشتہارات اور عنوانات دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔
ان تمام سرگرمیوں کا حاصل سوائے ضیاع وقت کے اور کیا ہو سکتا ہے ، بھلا واٹس ایپ پربھی صحافت سکھائی جا سکتی ہے،یہ ایک دور وز کا کھیل تو ہے نہیں کہ اسے گھول کر پلا دیا جائے یہ تو ایک مستقل لکھنے پڑھنے کا عمل ہے جو سالوں پر محیط ہوتا ہے، ان رائٹر فورمز سے کیا حاصل جو بیسیوں کی تعداد میں فیس بک پر موجود ہیں ، ان ماہناموں کا کیا فائدہ جن کا کوئی خریدار نہ ہو اور ان لائیو ویڈیوز کا کیا جواز جن کے دیکھنے والے سو پچاس ہوں ۔

یہ سب اگر تفریح طبع اور تکمیل شوق کے طور پر ہوتا تو جواز کی گنجائش نکل سکتی تھی مگر یہاں سمجھا یہ جا رہا ہے کہ اس سے ہم دین بیزار قوتوں ،سیکولرطبقے اورعالمی طاغوت کو زیر کر دیں گے ۔غالب نے کہا تھا :اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
مکرر عرض ہے کہ مذہب اتنا لاوارث اور سطحیت کا شکار کبھی نہیں ہوا تھا جتنا آج ہے ، اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنی تراث اور دینی علم کے ساتھ ہم عصر موضوعات پر سنجیدہ مطالعہ،سائنس کے بنیادی تصورات سے آگہی ، مغربی فکرو فلسفہ پر گہری نظر ، اپنے ماحول اور محاورے سے آشنائی ، مخاطب کے ذہنی و نفسیاتی پس منظر سے آگہی ، حساس ذہن ، دلیل وتہذیب، تحمل و برداشت اور حکمت و مصلحت سے کا م کرنے کی خو ، جب تک یہ سب نہیں ہو گاسیکولر طبقہ اور عالمی طاغوت تودور گاوٴں دیہات کے کسی ان پڑھ نوجوان کو بھی کسی بات پر قائل نہیں کیا جا سکتا۔ یہی حقیقت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :