مدارس اور مغالطے!

پیر 22 مارچ 2021

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

مدارس اور ارباب مدارس کے باب میں ، سماج میں بہت ساری غلط فہمیاں اور مغالطے موجود ہیں۔ان مغالطوں کا صدور مختلف اطراف سے ہوتا ہے ، کبھی حکومت و ریاست کی طرف سے کوئی مطالبہ سامنے آجاتا ہے ، کبھی لبرل احباب کی طرف سے اعتراضات کا ظہور ہوتا ہے ، کبھی میڈیا اور کالم نگار حضرات شکایات کرنے لگتے ہیں اور سب سے گمراہ کن اور شدت آمیز مغالطے وہ ہوتے ہیں جن میں کوئی مدرسے کا فاضل کمر کس کر ، انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔

مدارس اور ارباب مدارس کے باب میں یہ مغالطے کیوں پائے جاتی ہیں اس کی وجہ مدارس کے نظام اور ان کے اغراض و مقاصد سے کامل آگاہی نہ ہونا ہے۔آ ج کا مدرسہ محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ خانقاہ بھی ہے جہاں تعلیم و تزکیہ بیک وقت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس وقت زمینی سیارے کو بحثیت مجموعی جو معرکہ درپیش ہے وہ رو ح و بدن اورایمان ومادیت کا ہے ، دنیاواضح طور پرمادیت کے حصار میں ہے اور مادیت پرستی نے انسانیت کو جس حد تک گرا دیا ہے یہ کوئی پوشید راز نہیں رہا ، ایسے میں ہر وہ فرد اور ادارہ قابل رشک اور قابل تکریم ہے جو ایمانیت اور روحانیت کی بات کرتا ہے۔

اس تناظر میں مسجد و مدرسہ ہماری تہذیب اورایمانیت و روحانیت کے آخری مورچے ہیں ، جس دن یہ مورچے بھی فتح کر لیے گئے اس دن انسانیت کا وجود غیر ضروری ہو جائے گا۔اس حقیقت کو علامہ اقبال جیسے عالی دماغ نے ایک صدی قبل سمجھ لیا تھا اور اندلس سے واپسی پر جو الفاظ کہے تھے ان کی تاثیر آج دو چند ہوگئی ہے۔اس لیے ان مورچوں کی طرف تیر برسانے سے قبل لازم ہے کہ درست تناظر کو جان لیا جائے۔


چند اہم مغالطوں میں ایک سر فہرست مغالطہ یہ ہے کہ علماء اور ارباب مدارس تصویر اور کیمرہ کے خلاف ہیں ، دنیا کرسپر ٹیکنالوجی کی بات کر رہی ہے اور یہ ابھی تک انہی بکھیڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ دو چار دن قبل قاری حنیف جالندھری صاحب نے، خیر المدارس کے طلباء کے لیے تصویر کے بارے میں ایسی ہی کچھ ہدایات جاری کیں ، ایک صاحب نے کچھ اضافہ کے ساتھ اسے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا ، تحریر کچھ یوں تھی :”حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو اور تصاویر کی ابتلاء نے ہمارا بہت کچھ چھین لیا ہے۔

مدارس کے طلبہ جو قرآن و حدیث جیسے عالی علوم کے طالب علم ہیں ان ویڈیوز نے ، اور سوشل میڈیا کے عفریت نے ان کی روح اور دل و نگاہ کی پاکیزگی چھین لی ہے جو ان علوم کے لیے مطلوبہ لازمی اور بنیادی صفت ہے۔اسباق میں یکسوئی ، توجہ اور دھیان عنقا ہو گئے ہیں۔ ذہانتیں اور استعدادیں متاثر ہوئی ہیں،امتحانات میں فیل ہونے والوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

سوشل میڈیا سے انہماک نے نہ صرف لایعنی میں مبتلا کیا ہے بلکہ طلبہ میں اساتذہ سے بیگانگی ، تمرد اور نخوت کو بھی جنم دیا ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں کیمرہ گیا وہاں ساتھ ساتھ اس کے مسرفانہ لوازمات اور مطالبات بھی گئے۔اللہ معاف فرمائے مساجد میں ہونے والی بعض تقریبات کو دیکھ کر کسی شادی ہال کا گمان ہوتا تھا۔مزید برآں ویڈیوز نے ہماری نجی زندگی کو بھی متاثر کیا۔

ویڈیو بنانے والوں نے نہیں سوچا کہ کوئی شخص مریض ہے ، علیل ہے ، حتی کہ اموات کو بھی نہیں بخشا گیا۔ بس اپنے فیس بک پیج کے لیے زیادہ سے زیادہ لائکس لینے کے چکر میں اور یوٹیوب چینل کے ویورز میں اضافے کے لیے احتیاط کے تمام قرینوں اور تقاضوں کو پامال کردیا گیا۔ المجالس بالامانہ کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔“یہ ایک فکر انگیز تحریر تھی جس میں مدارس کے طلباء کو ان کے اصل مقاصد اور روحانیت کی طرف توجہ دلائی گئی تھی ۔

اس پر ایک معروف کالم نگار نے کچھ سخت الفاظ میں یہ تبصرہ کیا :” ہمارے بیشتر علماء دین مکمل طور پر غیر متعلق ہوچکے ہیں۔ سوائے ان کے اپنے مدارس کے طلبہ کے جو کل آبادی کا ایک فی صد بھی نہیں بنتے ، کسی نے اس فتوے کو درخور اعتنا نہیں سمجھنا۔ لوگ سوچیں گے کہ جب حرم پاک اور مسجد نبوی میں نمازیں براہ راست ویڈیو کوریج کے ذریعے دکھائی جا رہی ہیں تو یہ صاحب اور ان کا مدرسہ کیا چیز ہے۔

“اگر یہ کالم نگار بھائی کیمرہ اور ویڈیو کی تباہ کا ریوں کے ساتھ مدرسہ اور خانقاہ کے مقاصد سے بھی واقف ہوتے تو شایداتنا سخت تبصرہ نہ کرتے۔کیمرہ ، ویڈیو اور سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں کے تناظر میں، یہ اقدام اتنا متوحش بھی نہیں تھا۔
ایک عام مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ مدارس کی ڈگریوں کو ، ارباب مدارس خود نہیں منوانا چاہتے اور آج بھی عصری تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے، ایسے دوستوں اور کرم فرماوٴں سے عرض ہے کہ بجا آج بھی سے بہت سارے علماء عصری تعلیم کے مخالف ہیں ، بات مگر یہ ہے کہ یہ کوئی بہت اچھنبے کی بات بھی نہیں ،اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو وہ حق بجانب ہیں کہ ا ن کے نزدیک مدرسہ کا مقصد تزکیہ نفس اور صالح علما ء تیار کرنا ہے جو سماج کی دینی و روحانی ضروریات کو پورا کر سکیں۔

اگرمدرسے کا ہرطالب علم ڈگری لے کریونیورسٹیوں میں چلا جائے، عصری اداروں میں کھپ جائے ، سرکاری ملازمتوں میں چلا جائے تو سوچیں کتنا بڑا خلا پیدا ہو ، اس لیے جن علما ء کی یہ رائے ہے ان کے نقطہ نظر کو بھی تھوڑی بہت سپیس ملنی چاہئے ، حرف آخر کسی نقطہ نظر کو نہیں کہاجا سکتا۔
ایک اہم مغالطہ یہ ہے کہ مدارس میں پڑھنے کے بعد بعض طلباء عصری تعلیمی اداروں میں جا تے ہیں تو انہیں مدارس اور ارباب مدارس کے عیب نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ایسے احباب یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے سفر کی شروعات مدارس سے ہی ہوتی ہیں ، مدرسے نے ہی آپ کو شعوردیا ،آپ کی سوچ اورفکر میں وسعت آئی ، دنیا کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کا شعور ملا اور اسی شعور کی بنیاد پر آپ منزل مقصود( جس کو آپ منزل سمجھتے ہیں ) کو پہنچے۔اگر مدرسے کوبیچ میں سے نکال دیا جائے تو شایدآپ دینی تعلیم کی طرف آنے کی بجائے میٹرک انٹر کے بعد اپنے مقامی علاقوں میں کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرتے ، کھیت کھلیان اور بازاروں میں کام کر تے اور مقامی پس منظر میں کھو جاتے ۔


ایک اہم مغالطہ کامیابی کاہے ، وہ تمام احباب جو مدارس سے ہو کر یونیورسٹی اور دیگر عصری اداروں میں جا کر کھپ جاتے ہیں اور خود کو کامیاب تصور کرتے ہیں ، میرے نزدیک ان کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ وہ مدرسے میں پڑھنے اورمذہب کا طالب علم ہونے کی بنا ء پر مذہب ، مدرسے اور امت کو کیا لوٹا رہے ہیں ، پھر ایسے وقت میں کہ جب مذہب اور امت کو ایسے افراد کی ضرورت بھی ہے۔

سو اس مغالطے کو بھی درست کر لیا جائے کہ ہمیں اپنی کامیابیوں ، اپنی ترجیحات ، اپنی صلاحیتوں اور اپنے وقت کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی کامیابیوں کو جانچنے کا اصل پیمانہ یہی ہے کہ ہم اپنی ذات کے ساتھ مذہب ، مدرسہ اور امت کو کیا لوٹا رہے ہیں۔ہم میں داعیانہ سپرٹ اور اقبال جیسی دردمندی موجود ہے یا نہیں ،ہم جدید عصری اداروں میں جا کر اقبال جیسا درددل لے کر آتے ہیں یا جدیدیت زدہ ذہن ، جس کے پاس اپنے مذہب و ملت میں سوائے کیڑے نکالنے کے اور کچھ موجود نہیں ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :