صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے باہمی تعلقات

منگل 1 ستمبر 2020

Muhammad Nafees Danish

محمد نفیس دانش

قدرتی طور پر انسان جس سے محبت رکھتا ہے اس سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں اس کو محبوب ہوجاتی ہیں،چنانچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت رکھنے والے بھی آپ کے ساتھ نسبت رکھنے والی ہر چیز کو جان و دل سے محبوب رکھتے ہیں۔اہلِ بیتِ اَطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں ہمارے پیارے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے ۔

حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اہلِ بیتِ اَطْہار کی محبت کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا جیساکہ فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: کوئی بندہ اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو۔

(جاری ہے)


(شعب الایمان،ج 2،ص189، حدیث:1505مختصراً)۔


دورِ صَحابہ سے لے کر آج تک اُمّتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت سے مَحبت کا دَم بھرتے ہیں۔ حضرت علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو۔(فیض القدیر،ج 1،ص256) حضرت علّامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے۔

(الشرف المؤبد لآل محمد، ص94) تفسیرِ خزائنُ العرفان میں ہے:حُضور سیّدِعالَم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے۔
(خز ائن ا لعرفان، پ25،الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، ص894)
اے عاشقانِ رسول! صَحابَۂ کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار سے کیسی محبت رکھتے تھے اوراپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا کرتے تھے! آئیے اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں:
صَحابَۂ کرام کا حضرت عبّاس کی تعظیم و توقیر کرنا:صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔


(تہذیب الاسماء،ج 1،ص244، تاریخ ابنِ عساکر،ج 26،ص372)
حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔(معجمِ کبیر،ج 10،ص285، حدیث:10675)
حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت سیّدُنا عمر فاروق اور حضرت سیّدُنا عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے۔

(الاستیعاب،ج 2،ص360)
سیّدُنا صِدّیقِ اکبر کی اہلِ بیت سے محبت :
ایک موقع پر حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے قَرابَت داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔

(بخاری،ج2،ص438،حدیث:3712)
ایک بار حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔
(سابقہ حوالہ، حدیث: 3713)
امام حَسَن کو کندھے پر بٹھایا:حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا: میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں۔

اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے۔
(سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161)
سیّدُنا فاروقِ اعظم کی اہلِ بیت سے مَحّبت:
ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا:اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔

(مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789)
خُصوصی کپڑے دئیے:ایک موقع پر حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے، پھر فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے۔

(ریاض النضرۃ،ج1،ص341)
وظیفہ بڑھا کردیا:یوں ہی جب حضرت سیّدنافاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کے لئے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لئے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا۔

(سیراعلام النبلاء،ج3،ص259)
حضرت امیرمُعاویہ کی اہلِ بیت سے محبت:
حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں۔(الناھیۃ، ص59) آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے۔

(تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415) آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا۔
(سنن الکبریٰ للبیہقی،ج10،ص205، مؤطا امام مالک،ج2،ص259)
یوں ہی ایک بار حضرت امیرمُعاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ آبا و اَجْداد، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں۔

(العقد الفرید،ج 5،ص344) آپ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے تھے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)
ایک بار آپ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی۔
(تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)
اہلِ بیت کی خدمت میں نذارنے:حضرت امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار40کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا۔


(سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309،طبقات ابن سعد،ج 6،ص409، معجم الصحابہ،ج 4،ص370، کشف المحجوب،ص77، مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)
حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلِ بیت سے محبت:
حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔(الشرف المؤبد لآل محمد، ص92)
نیز آپ فرمایا کرتے تھے:اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے۔


(تاریخ الخلفاء،ص135)
حضرت ابوہریرہ کی اہلِ بیت سے محبت:
حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔(مسند امام احمد،ج 3،ص632)
پاؤں کی گرد صاف کی:ابومہزم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے۔


(سیراعلام النبلاء،ج 4،ص407)
حضرت عَمْرو بن عاص کی اہلِ بیت سے محبت:
عیزار بن حریث رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا:اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں۔


(تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)
 آپ نے مذکورہ بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار سے اپنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے؛کیونکہ سب صحابہ کرام اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اہلبیت کا گھرانہ وہ مخصوص گھرانہ ہے جو اخلاص و احتساب، صبروتوکل، زہد و استغناء، ایثار وسخاوت، ادب و حیا، خشوع وخضوع کے اعلیٰ معیار پر فائز ہیں، اور اسی کی ہمہ وقت دعوت وتبلغ کرتے رہتے ہیں ۔


اور یہ ایسا طبقہ ہے جو دنیا پر آخرت کو ترجیح، رضائے الہی اور دیدار کا شوق، نبی اکرم سے محبت کا جذبہ، اعتدال فطرت، سلامتی ذوق، مخلوق پر رحمت و شفقت، کمزوروں کے ساتھ ہمدردی تحمل و بردباری، تواضع وخاکساری، شجاعت و بہادری خدا کے لیے محبت و نفرت اور اعتدال پسندی کی راہیں ہموار کرنے کا پوری انسانیت کو درس دینے والے ہیں۔ انہوں نے تو برا معاملہ کرنے والے سے عفوو درگزر کرنا اور پھر صلہ رحمی کرنے کی عادت بنائی ہوئی تھی۔


یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے تمام شاگردوں کو یہی سکھایا تھا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اور پورے عالم اسلام کو یہ دعوت عام دیتے رہے کہ
یہی آئین فطرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن، محبوب فطرت ہے
صحابہ کرام کی تو پوری زندگی کا حاصل یہ تھا کہ
قدم ہیں راہ الفت میں تومنزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا
یقین مانیے کہ کچھ ناسمجھ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نادانستہ یا دانستہ طور پر سبّ و شتم کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے دل بہت زیادہ افسردہ اور غمگین ہوتا ہے کیونکہ اتنی زیادہ خوبیاں ہونے کے باوجود ان کو غلط سمجھنا اور ان کو معیار حق نہ سمجھنا یہ انتہائی شرمناک بات ہے
شاید ان کی نظر میں اہلبیت عظام اور صحابہ کرام کی غلطی یہ ہو کہ وہ علم و عمل کے گہوارے تھے ، دین و یقین کے شہ پارے تھے ، فہم و ذکا ء کےمہکارے تھے ، حق وبیان کے نقارے تھے ، نور و ضیا کے فوارے تھے،رشد و ہدیٰ کے منارےتھےاور اخلاق و رضا کے امنگ پارے تھے۔


الغرض دین اسلام کے لئے اہل بیت کی قربانیوں سے کون آگاہ نہیں جن کا خاندان ہی دین اسلام کی سربلندی کے لیے شہید ہوگیا، جنہوں نے کئی دن کی بھوک و پیاس برداشت کی مشقتیں جھیلیں ،جس طرح انہوں نے دین اسلام کے لئے قربانی دیں ہمیں بھی دین اسلام کی خاطر قربانی دینے کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے،جس طرح ان عظیم لوگوں نے ہر موقع پر صبر سے کام لیا ہے اہل بیت سے محبت کرنے والوں کو بھی چاہیے مشکلات پر واویلا کرنے کی بجائے صبر و ہمت سے کام لینا چاہیے۔

۔۔!
ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول کا بے حَدادب و احترام کریں، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام کی محبت و احترام سکھائیں۔
اللہ پاک کی ان پر خاص رَحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بھی مغفرت فرمائے آمین ۔ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :