باری باری

جمعہ 2 جولائی 2021

Muhammad Saqib

محمد ثاقب

حا لات حا ضرہ سے با خبر رہنے کے لیے ہمیں بہت سی چیزوں کا سہا را لینا پڑتاہے- اخبار، رسائل، ریڈیو، اور سب سے اہم ٹی-وی ہے.جس پرہم دیکھ بھی سکتے ہیں. لیکن جب بھی ٹی.وی لگایا جاے.کوہی بھی چینل لگا لیں.ایک ہی گیم چل رہی ہو تی ہے.اور یہ گیم ہماری سیاسی جماعتوں کی پسند یدہ گیم ہے اور وہ ہے پر یس کانفرس. ؛ جن کے ذریعے وہ عام لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں.
کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف سے ایک بیان جاری کیا جاتا ہے. اور کچھ د یر بعد دوسری جماعت کا بندہ آتا ہے.اور جوا بی وار کر کے چلا جاتا ہے.طنز کیے جاتے ہیں. طعنے دہے جاتے ہیں. بد تمیزی کی جاتی ہے. مثبت تنقید ہر ایک کا حق ہے. وه بھی ادب کےدائرے میں رہ کر.کوئی بھی انسان مکمل نہیں.ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خا می مو جود ہو تی ہے.لیکن اس طر یقے سے اچهالنا ٹھیک نہیں.
پر یس کانفرنس کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے. یہ سب لوگ اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہیں. یہ نہیں جانتے کہ ان کے منہ سے نکلا ہوا کوئی بھی اچھا، برا لفظ ان کی اپنی ہی شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں.
بجٹ کو ہی لے لیں. وزیر خزانہ بل پیش کرتے ہیں. اوراپوزیشن شور مچاتی ہے. اسپیکر کا گھیراؤ کیاجاتا ہے.انتہاہی بدتمیزی کی جاتی ہے. قو می اسمبلی کسی با زار کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے. حالیہ بجٹ میں جب لیڈر آف اپوزیشن نے تقاریر کر نے کی کوشش کی تو پہلی مرتبہ حکومتی اراکان کی طرف سے بھی شور شرابہ کیا گیا.اور تین دن شور ہی هوتا رها.
سوال یہ ہے کہ یہ اتنے پڑهے لکهے بندے جو پوری قوم کامستقبل سنوارنے کے لیے ووٹ لے کرقومی اسمبلی تک پہچتے ہیں. وہاں جا کر لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے آپس میں گتهم گتها نظرآتے ہیں. جب ان اسمبلیوں میں بڑے یہ کچھ کریں گے تو سکولوں میں بچوں کون سمجھائے گا؟ وہ کیسے با تمیز ہوں گے؟
وہ استاد کا احترام کیسے کریں گے؟
نوجوان نسل کو کیا دیکھایا جا رہا ہے؟
کیا یہ ایک ہو کر ملک کیلئے کچھ کر سکیں گے؟
جمعہ الوداع کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےخطبہ میں فرمایا تهاکہ تم میں سے کسی شخص کو کسی شخص پر کوئی فضیلت حا صل نہیں. اگر حاصل ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر. کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں. ایک کالا حبشی غلام بهی تمهارا خلیفہ بن جا ہے.اوراسلام کے مطا بق چلے تو اسکی اطاعت کرو. بے شک نبی کریم کی تعلیمات ابدی ہیں.
ہ باری باری آ کر ایک دوسرے پر الزام تراشی کو ختم کر نا ھو گا۔

(جاری ہے)

ھر ایک کو اپنے گر یبان میں جھا نکنا چاہیے۔کسی نے کھبی یہ نہیں سوچا کہ ہم ہر بات کا جواب نہ دیں۔اور ذاتی حملے نہ کر یں۔بلکہ سب مسلمان ہیں۔آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اور سب پا کستا نی ہیں۔اگر کوئی  پنجاب  سےتعلق رکھتاہے  یا کو ئی سند ھی ہے۔تو وہ یہ بھی سوچے کہ یہ سب صو بے پا کستان کا حصہ ہیں۔لوگ آج کل کی سیاست جو میڈیا  پر دکھائی جا رہی ہے ۔

لوگ تنگ آ چکے ہیں ۔کوئی ایک چینل بھی ایسا نہیں جو  ہے جو مثبت تنقید کرے۔اورایسا سیا ستدان نہیں  جو جواب نہ دے ۔جو جواب نہ دے گویا کہ اگر جوابی وار نہ کیا گیا تو دوسری جماعت ہمیں کمزور نہ سمجھ  بیٹھے۔
یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے مذہب میں کیا بتا یا گیاہے ۔
کیا پہلے وقتوں میں حکومتیں نہیں تھی؟
کیا ان لوگوں میں برداشت نہیں تھی؟
کیا  ان لوگوں میں احساس ذمہ داری نہیں تھی؟
میڈیا میں شامل لوگوں کو بھی چاہیے کہ ایمان داری سے اپنا کام کریں۔

سچ کا ساتھ دیں۔کسی ایک فرد کی طرفداری  نہ کی جائے ۔اور اگرتنقید کی بھی جائے تو معقول حل بھی بتایا  جائے ۔تصویر کا ایک  ہی رخ نہ دیکھایا جائے ۔
مختلف چینل  پر ٹاک شوز  کے نامپر مختلف پروگرام پیش  کیے جاتے ہیں ۔دو مختلف پارٹی کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ۔اورایک  دوسرے پر ایسے الزام لگائے جاتے ہیں کہ جس میں چھوٹے بڑےکی بھی کوئی تمیز نہیں کی جاتی ۔

اکثر تو دست و گریباں ہونے  لگتے ہیں ۔
ملک کاوزیراعظم کوئی بھی ہو،قابل عزت ہوتاہے۔لیکن ہمارے ملک میں برداشت کی انتہا ئی کمی ہے۔ہماری قومی اسمبلی میں عرصہ تین سال سےوہ دوستانہ ماحول پیدا نہیں ہو سکا۔جس کی بہت ضرورت تھی ۔ملک کے عظیم لیڈر ایک دوسرے کو عجیب ناموں سے پکارتے ہیں ۔اور یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ خود آپ کے اندر تعصب اور تعلیم وتربیت کی کتنی کمی ہے ۔
آپ کے اندر اسلامی تعلیمات کی کتنی کمی ہے؟ آپ نو جوان لوگوں کو کیا سیکھا رہے  ہیں ؟کون سا ورثہ چھوڑ کر جاہئں گے؟سوچنے کا مقام ہے ۔علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
؟بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :